ایک دن قبل خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے خواتین کے حقوق پر ہونے والا عورت مارچ، اس سے جڑے نعرے اور اس مارچ پر ہونے والی تنقید گذشتہ کئی دنوں سے پاکستان میں زیر بحث ہے۔
سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینز سے شروع ہونے والی بحث اب اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچی ہے۔ سیاسی رہنما اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے خواتین کے حقوق اور عورت مارچ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو مولانا فضل الرحمان نے دوٹوک مخالفت کی۔
ہرکسی کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بحث میں عورت مارچ کے مخالفین اب تک ایک محدود سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس مارچ کے مقاصد کو تنگ نظری سے دیکھ رہے ہیں۔ چند نعروں میں اپنی سوچ کے مطابق فحاشی ڈھونڈ رہے ہیں جو نہ صرف میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کے پیچھے چھپے خواتین کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا رہے ہیں بلکہ پاکستان میں خواتین کو درپیش ایک بہت بڑے چیلنج سے نمٹنے میں رکاوٹ بننے والی ذہنیت کی عکاسی بھی کر رہے ہیں۔
آپ کو میرا جسم میری مرضی سے جو بھی اختلاف ہو آپ اس کا جو بھی مطلب نکالیں آپ اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ آج بھی خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسے واقعات میں سے ایک بڑا حصہ درس و تدریس جیسے مقدس پیشے سے جڑا ہے۔
وہی مولانا فضل الرحمان ہیں جو عورت مارچ پر تو کھل کر تنقید کر رہے ہیں لیکن حال ہی میں گومل یونیورسٹی میں منظر عام پر آنے والے سکینڈل پر تاحال خاموش ہیں جس میں اسلامک ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی جانب سے طالبات کو نوکری اور نمبروں کا جھانسہ دے کر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے انکشافات سامنے آئے تھے اور اب تک ان سمیت یونیورسٹی کے کئی اور لوگ نوکری سے نکالے جا چکے ہیں۔
یہ واقعہ انوکھا نہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں حال ہی میں ایک منظم انداز میں طالبات کی خفیہ ویڈیوز بنانے والے گروہ کا انکشاف بھی ہوا اور اس سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کی شکایات سامنے آنے پر سب سے پہلے کوشش کی جاتی ہے کہ معاملہ دبا دیا جائے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے واقعے میں وی سی اس وقت تک مستعفی نہیں ہوئے جب تک عدالت نے نوٹس نہیں لیا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ تمام تر تنقید اور بحث کے باوجود اب تک کسی ملزم کے خلاف کارروائی تو دور، ملزمان کی نشان دہی تک نہیں کی جا سکی جب کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنسی ہراسانی کی شکایات درست تھیں۔
یہ معاملہ صرف ایک یا دو یونیورسٹیز تک محدود نہیں۔ دختر فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس ایک ادارے کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں سے ہراسانی کی 20 ہزار سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 16 ہزار سے زیادہ شکایات اساتذہ کے خلاف تھیں اور یہ بات بھی اہم ہے کہ ان اساتذہ میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کو ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لئے بنائی جانے والی کمیٹیوں کا حصہ بنایا گیا تھا۔
شاید یہی وجہہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بار بار یونیورسٹیز کو اس معاملے پر کارروائی کرنے کی یاد دہانی کے باوجود اب تک 210 یونیورسٹیز میں سے صرف 85 کی جانب سے ایچ ای سی کی ہدایات پر عمل در آمد کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر کی یونیورسٹیز میں جنسی ہراسانی کے بڑھتے واقعات کے خلاف گذشتہ چار ماہ میں کئی اجلاس ہوئے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
آئے دن ایک نیا واقعہ سامنے آ جاتا ہے۔ جس معاشرے میں قبر کے مُردوں کو اپنی ہوس کا شکار بنا لیا جاتا ہے، کیا اس معاشرہ میں جوان لڑکی محفوظ ہے؟ ہمارے ملک میں مردوں کا ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جو عورت کی خوبی، عورت کی طاقت، عورت کی بہادری، عورت کی کامیابی دیکھنے سے بالکل قاصر ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب کسی کی توہین کرنی ہو تو اس کو عورت کہہ دیا جاتا ہے۔
’لڑکیوں کو طرح نہ رو‘
’لڑکیوں کی طرح ڈرامے نہ کرو اور مردوں کی طرح بات کرو‘
ہمارے معاشرے میں کسی کی تذلیل کرنے کے لئے عورت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جب عورت کمزور اور بزدل ثابت نہیں ہوتی تو تنقید کے نشتر برسائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ دس بچے ہوس کا شکار بنتے ہیں۔ ساٹھ فیصد عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور 15 ہزار 2 سو 22 عزت کے نام پر قتل کی جا چکی ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
ہمارے ملک میں عورت مارچ میں چند پلے کارڈز کے خلاف محاذ تو کھڑا کر دیا جاتا ہے مگر بہادری کے بھی بہت قصے مشہور ہیں، جیسے پنڈی میں دس سالا بچی کے ساتھ زیادتی اسی کے والد صاحب نے کی، فیصل آباد میں پندرہ سال کی بچی پر تشدد، کوئٹہ میں تیرہ سال کی بچی کو ہوس کا شکار انہی کے چچا نے بنا ڈالا۔
ایسے واقعات سن کر کوئی کیسے خاموش بیٹھ جائے؟ ایک مرد کو جنم دینے والی عورت۔ مرد کو باپ کا درجہ دینے والی عورت۔ اسی طرح عورت کی عزت کا محافظ مرد ہے۔ یہ عورت مارچ ان تمام لوگوں سے جنگ ہے جنہوں نے عورت کو ایک کھلونا سمجھا ہوا ہے۔
مصنفہ سما نیوز پر پروڈیوسر ہیں، اور اس سے قبل مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔