پی اے سی نے جسٹس مظاہر نقوی کے اثاثوں کا ریکارڈ طلب کر لیا

پی اے سی نے جسٹس مظاہر نقوی کے اثاثوں کا ریکارڈ طلب کر لیا
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کی آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات 15 دنوں میں طلب کر لیں۔

چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی کے 14 میں سے 13 ارکان نے جسٹس مظاہر نقوی کے اثاثوں کی چھان بین کی اجازت دی گئی۔ جبکہ صرف پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے جج کے اثاثوں کی چھان بین کرنے کی مخالفت کی۔

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل ( SJC) کے سامنے مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے متعدد ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔

پی اے سی نے جسٹس مظاہر نقوی کی آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات 15 دنوں میں طلب کر لیں. جسٹس مظاہر نقوی کے ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ بھی مانگ لیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت ہاؤسنگ سے جسٹس مظاہر نقوی کو دیے گئے پلاٹس کی تفصیلات اوربیچی گئی زمینوں یا پلاٹس کاریکارڈ اور بیرون ملک سفر کی ہسٹری بھی طلب کرلی۔

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ آڈیٹر جنرل مظاہرعلی نقوی کے پلاٹس کی کیٹگریز کی تحقیقات کرکے رپورٹ جمع کرائیں اور نادرا جسٹس مظاہر علی نقوی کے خاندان میں شامل افراد کے نام کی لسٹ فراہم کرے۔

اس موقع پر نور عالم خان کا کہنا تھاکہ یہ جسٹس مظاہر یا کسی ایکس وائی کا ایشو نہیں۔ یہ کرپشن کا مسئلہ ہے۔ اس لیے نہیں چھوڑوں گا۔ اگرمیری بہن، بیٹی اور بچوں کے بھی اثاثے آمدن سے زائد ہیں توپیچھاکروں گا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری داخلہ، چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز نہیں آئے جبکہ چیئرمین نیب اورچیئرمین نادرا بھی غیرحاضر رہےجس پر چیئرمین پی اے سی نورعالم نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آئندہ اجلاس میں چیف سیکرٹریز نہ آئے تو وارنٹ جاری کریں گے.

گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی نے پی اے سی سے درخواست کی تھی کہ وہ جسٹس مظاہر نقوی کے اکاؤنٹس اور ذرائع آمدن کا ان کے خلاف کرپشن کے الزامات کے جواب میں خصوصی آڈٹ کرے۔ یہ درخواست پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان جاری تنازعہ کے درمیان سامنے آئی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے 13 ارکان نے جسٹس مظاہر نقوی کے اثاثوں اور آمدن کی جانچ پڑتال کی منظوری دی جبکہ سینیٹر محسن عزیز نے انکوائری کی مخالفت کی۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے اس سے قبل سپریم کورٹ کے 2010 سے 2021 تک کا آڈٹ کرانے کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ کو 16 مئی کو طلب کیا تھا۔