بچیوں کے حقوق کیلئے سرگرم پاکستان کی بیٹی، حدیقہ بشیر

بچیوں کے حقوق کیلئے سرگرم پاکستان کی بیٹی، حدیقہ بشیر
حدیقہ بشیر اپنے پڑوس میں گھر گھر جا رہی ہیں ، اور اہل خانہ سے مطالبہ کررہی ہیں کہ وہ بچوں کی کم عمری کی شادی بیاہ ختم کریں تاکہ لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کرسکیں۔
حدیقہ بشیر ایک پراعتماد ، خوب سیرت نوجوان سوشل ایکٹیویسٹ ہیں،  وہ خیبر پختونخوا ، ضلع سوات ، سیدو شریف میں ایک ایسے معاشرے  میں پیدا ہوئے جہاں مردوں کو خواتین پر فوقیت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چھ ماہ کی رپورٹ کے مطابق سوات میں پانچ لڑکیاں جن کی عمر 15 سے 20 سال  تھی، اور دو خواتین جن کی عمر 40 سال سے زیادہ تھی ، گھریلو تشدد سے تنگ آ کر انہوں نے خود کشی کی ۔


حدیقہ جب نو سال کی تھی تو اس کیلئے ایک تیس سالہ مرد کا رشتہ آیا، جس کیلئے وہ بالکل تیار نہیں تھی، اپنے چاچا کے ساتھ مل کر اس نے اپنے حقوق کے بارے میں اور گھر والوں کے خلاف سراپا احتجاج ہوئیں ، مجبوراً اس کے خاندان والوں کو اس کی شادی روکنی پڑی ۔


مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ، پھر جب حدیقہ اسکول جاتی تھی ، تو سکول میں حدیقہ کے دوست دن بدن کم ہوتے چلے جا رہے تھے،جب حدیقہ کو معلوم ہوا کہ اس کے دوستوں کی شادی ہورہی ہیں تو وہ ان کے پاس پہنچ گئی، حدیقہ کو پتہ چلا کہ ان بچوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ان پر تشدد ہوتا ہے ۔


اسی حوالے سے حدیقہ کا کہنا  ہے"میرے ایک ہم جماعت نے اس وقت شادی کی جب ہم چھٹی جماعت میں تھے۔ پہلے تو ہم خوش تھے ، لیکن پھر میں نے دیکھا کہ اسی کس طرح کی حالت کا  سامنا کرنا پڑا۔ اسے اپنی شوہر کے اہل خانہ نے کئی بار پیٹا۔ میں نے داغ دیکھے اور اس سے مجھے خوف آنے لگا "۔


اس کے فوراً بعد ، جب وہ 12 سال کی تھی ، حدیقہ نے بچوں کی شادیوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ گھر گھر جاکر گھر والوں کو ان کی بچیوں کی حقوق کیلئے آگاہ کرتی رہی اور  اسی طرح 2014 میں ان کی تنظیم گرلز یونائیٹڈ فار ہیومن رائٹس کا آغاز ہوا۔


گرلز یونائیٹڈ فار ہیومن رائٹس لڑکیوں کی ایک جماعت ہے ، جس کی سرپرستی حدیقہ کرتی ہے، تنظیم کی لڑکیاں مل کر بچوں کی شادیوں لڑکیوں اور خواتین کے مساوی مواقع کے خلاف لڑتے ہیں۔


 حال ہی میں پائیدار ترقیاتی اہداف کے بارے میں اقوام متحدہ کے 17رکنی نوجوان رہنماؤں میں  حدیقہ بشیر کو عالمی سطح پر شامل کیا گیا۔

حدیقہ کا یہ بھی کہنا ہے "میں ہرگز شادیوں کے خلاف نہیں ، میں جبری اور کم عمری میں شادی کے نام پر بچیوں کا سودا کرنے کے خلاف ہوں"


یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق  پاکستان پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی تعداد 19 لاکھ سے زیادہ ہے ، پاکستان میں تقریبًا 21 فیصد خواتین 18 سال کے کم عمری سے قبل ہی شادی کر لیتی ہے ، جبکہ تین فیصد کی شادی 15 سال کے ہونے سے پہلے ہی کروا دی جاتی ہے۔


ایک حدیقہ کڑی ہوئی اور اب تک سات شادیاں اپنے ہاتھ سے روکوا چکی ہے ، لیکن 19 لاکھ سے زیادہ بچیوں کو ان کی حقوق دلانے ہوں تو ہم سب کو ایک ہونا ہوگا اور کم عمر میں شادیوں کے خلاف مل کر لڑنا ہوگا ، تب ہی پاکستان جو عورتوں کو حقوق دینے میں151 نمبر پر ہے کسی اچھی پوزیشن میں آئے گا۔