'عمران خان کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہے'؛ پی ٹی آئی کی سٹریٹجی تبدیل

عمران خان اب بری طرح پھنس گئے ہیں۔ ان کے خلاف پرانے کیسز تو ہیں ہی، اب نئے کیسز بھی بنیں گے۔ جیسے جیسے پی ٹی آئی کے روپوش رہنما منظر عام پر آئیں گے، ان رہنماؤں کے بیانات عمران خان کو اس دلدل میں مزید دھکیلتے چلے جائیں گے۔

'عمران خان کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہے'؛ پی ٹی آئی کی سٹریٹجی تبدیل

سینیئر وکلا کے مشورے پر پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور پارٹی اپنے رہنماؤں سے حلفیہ بیان لے رہی ہے جن میں رہنما کہہ رہے ہیں کہ عمران خان 9 اور 10 مئی کے واقعات کے ذمہ دار نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی بھی قومی اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی بات نہیں کی۔ پی ٹی آئی کے نصف سے زیادہ رہنماؤں نے حلفیہ بیان ریکارڈ کروا دیے ہیں جنہیں وکلا کی جانب سے عدالت میں عمران خان کو پرو-اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کے لیے پیش کیا جائے گا۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چودھری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چودھری نے بتایا کہ عمران خان نے اپنے سینیئر وکلا کے مشورے پر سٹریٹجی تبدیل کر لی ہے۔ عمران خان نے پہلے جو بیانات اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دیے تھے وہ گلے پڑ جائیں گے کیونکہ سابق پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار اور صداقت علی عباسی جیسے قریبی رہنماؤں کے بیانات سامنے آنے کے بعد عمران خان کے بچنے کے امکانات انتہائی کم رہ جائیں گے۔

پی ٹی آئی انتظامیہ کی جانب سے پارٹی رہنماؤں سے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا گیا ہے اور ان سے بیان ریکارڈ کروائے گئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات عمران خان کے کہنے پر نہیں دیے اور 9 مئی کے واقعات کے ذمہ دار عمران خان نہیں ہیں۔ اگر اس کے بعد کوئی بیان سامنے آئے گا تو وہ جبری طور پر لیا گیا ہو گا۔

ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تا کہ اگر بعد میں ان میں سے کوئی پارٹی رہنما عمران خان کے خلاف بیان دے گا تو ان کے اس بیان کو ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ زلفی بخاری، زرتاج گل سمیت کچھ رہنماؤں نے تو بیان ریکارڈ کروا دیے لیکن کچھ نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ کیا پارٹی قیادت کو ہم پر بھروسہ نہیں؟ ہم کسی صورت جھکنے یا بکنے والے نہیں۔ ہم اپنی سیاست میں اللہ تعالیٰ اور قرآن پاک کو کیوں لے کر آئیں؟

صحافی کے مطابق عمران خان اب بری طرح پھنس گئے ہیں۔ ان کے خلاف پرانے کیسز تو ہیں ہی، اب نئے کیسز بھی بنیں گے۔ جیسے جیسے پی ٹی آئی کے روپوش رہنما منظر عام پر آئیں گے، ان رہنماؤں کے بیانات عمران خان کو اس دلدل میں مزید دھکیلتے چلے جائیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہیں اور کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان نہیں دیا، کبھی سازش کی بات نہیں کی، کسی کو ڈرٹی ہیری نہیں کہا، کسی کو نیوٹرل ہونے پہ جانور نہیں کہا تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات خراب کیوں ہیں؟ صحافی نے کہا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے 3 شکوے ہیں؛

1۔ ان کو لگتا ہے کہ جب عدم اعتماد آئی تو فوج کو میری حکومت بچانی چاہئیے تھی۔ عمران خان نے جنرل باجوہ کو کہا تھا کہ اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کو راضی کر لیں کہ یہ عدم اعتماد واپس لے لیں تو میں اسمبلی تحلیل کر دوں گا۔ یعنی فوج 'ڈنڈے' کے زور پر عدم اعتماد کو ناکام بنائے اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو درست کرے۔ لیکن جنرل باجوہ دیگر جماعتوں کو راضی نہ کر سکے۔

2۔ جب پی ڈی ایم حکومت بن گئی تو عمران خان نے جنرل باجوہ پر بہت پریشر ڈالا۔ خان صاحب نے بارہا اس حکومت کو ہٹانے کے لیے اسد قیصر اور پرویز خٹک کو جنرل باجوہ کے پاس بھیجا کہ اس حکومت کو فارغ کروا کر الیکشن کروائیں۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ میں اس حکومت کو کیسے ہٹا سکتا ہوں، ان کے پاس اکثریت ہے۔ میں انہیں ڈنڈے کے زور پر نہیں ہٹا سکتا۔

عمران خان جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے دو جرنیلوں کے نام دیے تھے جن میں سے ایک جنرل فیض حمید تھے۔ اپنے من پسند شخص کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے لیے عمران خان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ باجوہ صاحب سے ڈیل کی بھی کوشش کی کہ آپ توسیع لے لیں لیکن عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں بننا چاہئیے۔ اس حوالے سے ایوان صدر میں دو مرتبہ عمران خان سے جنرل باجوہ کی ملاقات ہوئی۔ لیکن جنرل باجوہ نے کہا کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے نام بھجوانے ہیں، فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہے۔ جنرل باجوہ پیچھے ہٹ گئے اور توسیع لینے سے بھی انکار کر دیا۔

اس حوالے سے جنرل باجوہ حلفاً کہہ چکے ہیں کہ عمران خان نے ان پر بہت دباؤ ڈالا کہ آپ توسیع لے لیں۔ جنرل باجوہ کے مطابق اس دوران کچھ جرنیل بھی مجھ سے ملنے آئے کیونکہ میری توسیع سے ان کو فائدہ ہو سکتا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا۔

اس کے بعد عمران خان نے ملک گیر دھرنا کیا تا کہ فوج کے اندر بغاوت ہو جائے اور جنرل عاصم منیر آرمی چیف نہ بنیں۔ لیکن اس دھرنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس کے بعد جنرل عاصم منیر آرمی چیف بن گئے جس کی عمران خان کو بہت تکلیف ہوئی کیونکہ وہ بذات خود عاصم منیر کے ساتھ کمفرٹ ایبل نہیں تھے جبکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان سے روحانی تعلق بھی نہیں بن سکتا کیوںکہ ان کا 'مراقبے میں' بھی نام نہیں آیا تھا۔

اب پی ٹی آئی رہنماؤں سے حلفیہ بیان لے کر عدالت میں عمران خان کو بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ جاوید چودھری کے مطابق پی ٹی آئی کے کئی رہنما اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں اور آنے والے دنوں میں کئی رہنماؤں کے بیانات منظر عام پر آئیں گے جو عمران خان کی مشکلات میں اضافہ کریں گے۔ ان میں شیخ رشید، فرخ حبیب، حماد اظہر اور علی امین گنڈا پور کے نام خاص طور پر لیے جا رہے ہیں۔