سینیئر سیاست دان افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں سکیورٹی کی پالیسی واضح کی جائے، طالبان کو یہاں سے دور رکھا جائے، ان علاقوں کی ترقی پر کام کیا جائے تو مقامی طور پر دہشت گردی کے خدشات ختم ہو جائیں گے۔ ایک سال گزرنے کے باوجود طالبان افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت نہیں بنا سکے۔ طالبان کا تجربہ جس طرح 1990 میں ناکام ہو گیا تھا اب بھی ناکام ہو گیا ہے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ‘ Pakhtunkhwa Today’ میں افغانستان میں داعش کے حملوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ روسی سفارت خانے پر افغانستان میں حملہ کیا گیا ہے یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ مغرب یوکرین میں پریشر کو کم کرنے اور روس کو روکنے کے لئے مرکزی ایشیا میں ایک اور محاذ کھولنا چاہتا ہے۔ روسی سفارت خانے پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ افغانستان میں داعش کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ یہ اس نئی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے جس میں روس اور چین ایک طرف ہیں اور امریکہ اور یورپ دوسری طرف۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خطہ ایک مرتبہ پھر بڑی طاقتوں کی جنگ کے لئے اکھاڑا بن رہا ہے اور خدشہ ہے کہ جس طرح پچھلی جنگ میں ہوا اسی طرح اب بھی مقامی لوگوں کو نئی جنگ کے لئے ایندھن کے طور پہ استعمال کیا جائے گا۔
تحریک طالبان پاکستان کی پاکستان میں کارروائیوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے تمام اضلاع کے لئے انہوں نے ایک متوازی انتظامیہ بنائی ہے۔ فاٹا کو وہ الگ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مطالبہ بھی پرانے کھیل کا حصہ ہے۔ یہاں سے چالیس سال تک جنگ لڑی جاتی رہی ہے۔ یہ علاقہ لانچنگ پیڈ رہا ہے جنگوں کا۔ اب مرکزی ایشیا میں جو نئی جنگ کی تیاریاں ہو رہی ہیں تو پھر سے فاٹا کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ ہے۔
ہمارے مختلف اضلاع سے لوگ طالبان کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ موجودہ مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام نہیں چاہتے کہ یہاں پھر سے بدامنی پیدا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی سکیورٹی پالیسی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تزویراتی لڑائی سے نکل جانا چاہیے۔ پالیسی تبدیل کریں گے تو دنیا میں ہماری پہچان تبدیل ہوگی۔