چیف جسٹس پاکستان سمیت 4 جج صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر کردی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن کے خلاف شکایات دائر کی گئی ہیں جب کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ایک اور شکایت دائر کرادی گئی ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف پہلے ہی 4 شکایات درج کروائی جا چکی ہیں۔
سردار سلمان ڈوگر ایڈوویٹ کی جانب سے دائر شکایت میں کہا گیا ہےکہ غلام محمود ڈوگر اور صوبائی انتخابات کیس میں ججزنے مس کنڈکٹ کیا۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال سمیت چاروں ججز مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے۔ چاروں ججز نے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کی چیف جسٹس سمیت چاروں ججزکو عہدے سے ہٹایا جائے۔
چیف جسٹس سمیت تمام ججز کے خلاف شکایت کی کاپیاں سپریم جوڈیشل کونسل کے دیگر ممبران کو بھی ارسال کردی گئی ہیں۔
پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ جاری ہونے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)، پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی، اور دیگر جماعتوں کی جانب سے فیصلے کو ناصرف مسترد کیا گیا بلکہ عوامی طور پر چیف جسٹس سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
3 اپریل کو سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھ کر درخواست کی کہ جسٹس مظاہر علی نقوی پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سےسپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کا اجلاس بلایا جائے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آنے کے بعد جسٹس مظاہر نقوی کو تنقید اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے بطور جج ٹینیور کے دوران مظاہر نقوی اور ان کے خاندان کے افرادنے ان اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک سے زائد شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ شکایات پر سنوائی کے لیے جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کیا جانا چاہیے تاکہ واضح ہو سکے کہ جج پر لگنے والےالزامات میں کوئی صداقت ہے یا نہیں؟ جج پر لگنے والے الزامات درست ہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اگر الزامات درست نہیں ہیں تو جج کی عزت بحال کرنے کے لیے اقدامات ہونے چاہیئں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ پر سےعوام کا اعتماد کم ہوچکا ہے۔ عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
خط ایسےوقت میں سامنے آیا جب بلوچستان بار کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل سے جسٹس نقوی کے خلاف ریفرنس شروع کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
ریفرل میں جسٹس نقوی کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ جج کی آڈیو لیکس نے عدالت کی آزادی اور وقار کے بارے میں خدشات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہےجو کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ ریفرنس میں کہا گیا کہ جسٹس نقوی کے ساتھ آرٹیکل 209 کے مطابق کارروائی کی جائے اور ان کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
اس سے قبل پاکستان بار کونسل نے بھی جسٹس نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا اور مبینہ آڈیو لیک پر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔