جماعت احمدیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ گوجرانوالہ پولیس کی جانب سے ان کی عبادت گاہ کے بیرونی دروازے پر بنے میناروں کو گرا دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ ضلع گوجرانوالہ کے علاقے باغبانپورہ میں پیش آیا جہاں احمدیوں کی تعمیر شدہ عبادت گاہ کے مینار گرائے گئے۔
چھ ماہ قبل کچھ مسلمان حلقوں کی جانب سے جماعت احمدیوں کی عبادت گاہ کے بیرونی دروازے پر بنے میناروں کے خلاف گوجرانوالہ پولیس کو درخواست دی گئی تھی۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ احمدی عبادت گاہ کے باہر تعمیر شدہ مینار گرائے جائیں جس سے مسجد کا تاثر ملتا ہے۔ ان میناروں کو جماعت احمدیہ کے لوگوں نے آئرن شیٹ لگا کر کور کر دیا تھا تا کہ کسی کو نظر نہ آئیں۔
مؤرخہ7 اور 8 دسمبر 2022 کی درمیانی شب 2 بجے کے قریب پولیس کی نفری دو گاڑیوں، ایک ایکسکویٹر اور ایک لوڈر کے ساتھ میناروں کو مسمار کرنے کے لئے اس جگہ پر پہنچے۔عبادت گاہ کے سامنے والی سڑک کوبند کر دیا گیا اور قریب لگی لائٹس بھی بند کروادی گئیں۔ دروازے پر بنے میناروں کو چند منٹوں میں گرا دیا ہے اور پولیس اہلکار لوڈر کے ذریعے ملبہ اٹھا کر ساتھ لے گئے۔
جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ عبادت گاہ کے مینار مخصوص احمدیہ آرڈیننس کے نفاذ سے قبل تعمیر کیے گئے تھے۔
پاکستان کی اقلیتی احمدی کمیونٹی کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جسے اکثر قانونی اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اسی مہینے کے آغاز میں ایک احمدی شخص پر 'سید' کو بطور اسم اول استعمال کرنے پر ملک کی احمدیہ مخصوص تعزیری دفعات کے تحت کراچی پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔ ایف آئی آر کی ایک کاپی کے مطابق ملزم ایک وکیل تھا اور عدالت میں دوسرے احمدیوں کی نمائندگی کر رہا تھا۔ اس شخص نے کیس کے سلسلے میں کچھ دستاویزات جمع کرائی تھیں۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دستاویزات میں اسلامی اصطلاحات شامل ہیں۔ اس کا نام ساتھ میں نمایاں تھا۔
پنجاب کے ضلع اٹک کے ایک سکول نے ستمبر کے اوائل میں چار احمدی طلبہ کو ان کے اساتذہ کی مذموم مہم کے بعد نکال دیا تھا۔ طلبہ کے رشتہ دار کا کہنا تھا کہ انہیں محض احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے.
خیال رہے کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کو 1974 میں پارلیمان نے غیر مسلم قرار دیا تھا اور بعد میں جنرل ضیا الحق کےدور میں آنے والے ایک نئے قانون امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت ان پر مزید پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔