لِکھنے والے کو اپنے ارد گرد سے آنے والی آوازیں مُتاثر کیے بغیر نہیں رہتیں اور اس کی یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ معاشرے کے مختلف طبقوں کی کسی نہ کسی طرح عکاسی کرے۔ اسی کوشش کے پِیشِ نظر میں نے مندرجہ ذیل لکھا
غذب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا
تُم نے غریب کو جینے سے ہی بیزار کیا
تِری عظمت کے سُناتے تھے لوگ گیت سبھی
تُم نے چلتی ہوئی معاش کو مِسمار کیا
تُم جو کہتے تھے یہاں عدل سرِعام ہوگا
تِرے گُما شتوں نے عدل داغدار کیا
تِرے چاروں طرف جمع ھہوئے لُٹیروں نے
تُم کو مَضبُوط شِکَنجے میں گرفتار کیا
یُوں تو دو چار چور دَھر بھی لیے ہیں تُم نے
پھر مگر چوروں کا لشکر نیا تیار کیا
گرد تیرے کیے اندھیرا ہیں جو بیٹھے لوگ
تِری عزَّت پہ بھی ہم پر بھی سب نے وار کیا
سُنتے بھی ہو کہاں دانش بھری باتیں اب تُم
تُمہیں آقاؤں کے فرمان نے بے کار کیا
ناخُداؤں کے کَھڑے بُت بھی تُم گِرا نہ سکے
کیا تُمہیں اس لئے تھا ہم نے باوقار کیا
ہاتھ اورآنکھیں اپنی دان دے کے اوروں کو
واسطے سب کے تُم نے خود کو پُر اِصرار کیا
تِری تبدیلی کی مَیَّت اُٹھائے کاندھے پر
کُل زمانے میں ہم نے خود کو شرمسار کیا
تِیرا وہ فہم اور ہم سے کیا عہد وفا
ایک پرچھائی تھی ہم نے چلو اقرار کیا
کوئی پرویز تھا داؤد اور جہانگیر نے بھی
ہم سے کھِلواڑ کیا تُم کو بے اختیار کیا
بیٹھے ہو تُم چبُوترے پہ مجازی پیکر
دَھن پَرَستوں نے تِری آڑ میں بیو پار کیا
تُم ہو مجبُور ناؤ اُس طرف چلانے کو
طرف کو جس اشارہ آقا نے اِک بار کیا
فِعل ناکامی کے دُہرائے سارے جن پہ کَبھی
تُم نے ماضی میں بادشاہوں سے تکرار کیا
تُم نے دُھندلا دیے وہ نقش جو بنانے کو
ہم نے تیرے لئے تھا خود کو قلم کار کیا