طلعت حسین بنتے پھریں ہیرو، ہم ان کی طرح بدتمیز نہیں ہو سکتے

طلعت حسین بنتے پھریں ہیرو، ہم ان کی طرح بدتمیز نہیں ہو سکتے
بچپن سے ہم میں اور ہمارے چھوٹے بھائی میں ایک فرق تھا۔ ہم ہمیشہ کرتے وہی تھے جو امی کہتیں لیکن بول پڑتے تھے۔ سوال اٹھاتے تھے۔ بھائی ہمیشہ کرتا وہی تھا جو اس کی مرضی ہوتی لیکن چپ رہتا تھا۔ سوال نہیں اٹھاتا تھا۔ یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ ہم میں سے اچھا کون تھا۔ امی کی نظر میں کس کا مرتبہ بلند تھا۔ یہی دستور دنیا ہے۔ وہ پنجابی میں کیا کہتے ہیں

جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے

عقل مند ہمارا چھوٹا بھائی تھا۔ جس نے ہمیشہ اپنی منوائی بھی اور امی جان کی آنکھ کا تارہ بھی بنا رہا۔ زندگی یونہی چلتی رہی۔

کرتے وہی ہیں جو زمانہ اصول رائج کرے لیکن بولتے ضرور ہیں

اگر آپ کو بھی یاد ہو تو بچپن میں بچے ایک دوسرے کو ماپتے ہیں۔ کندھے ملاتے ہیں۔ جس کا قد لمبا نکلے اسے 'بڑا' کہتے ہیں۔ ہم شروع سے ہی ذرا پکے بچے تھے لہٰذا اپنے دوستوں کی اس حرکت پر خوب ہنستے کہ بھلا قد سے بھی کوئی بڑا ہوا ہے۔ اب خیال آتا ہے کہ انسان کا محض قد ہی لمبا ہوتا ہے۔ یہ عمر بڑھنا کچھ نہیں ہوتا۔ انسان کا اندر کہاں بدلتا ہے؟

چھوٹا بھائی بھی لمبا ہو گیا اور ہم بھی۔ حالات ابھی بھی وہی ہیں۔ وہ ابھی بھی اچھا بچہ ہے۔ اور ہم اب بھی بولنے کی عادت سے مجبور ہیں۔ کرتے وہی ہیں جو زمانہ اصول رائج کرے لیکن بولتے ضرور ہیں۔ جو بات دل میں آئے کہے بغیر رہ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بدتمیز کہلاتے ہیں۔ یہ دائرہ والدین سے بڑھ کر آگے جا چکا ہے۔ اب زمانے کی نظروں میں برے ہیں۔

ہمارے ہم عصر و ہم پیالہ کوئی بات کہنے سے ڈرتے، وہیں ہم وہی بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے

ہماری اسی بدتمیز شہرت کی وجہ سے ہمارے زیادہ دوست نہیں بن پاتے تھے۔ اس لئے ہم نے لکھنا شروع کر دیا۔ اب جو بات گھر والوں سے کرتے تھے پوری دنیا کے سامنے کرنے لگے۔ بسا اوقات ایسا ہوا کہ لوگوں کا پیار سمیٹا۔ لیکن کئی بار لوگوں کے غصے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ خیر ہمیں تو بچپن سے بدتمیزی کی عادت تھی۔ نہ رکے۔ ملک سے باہر جا چکے تھے لہٰذا ہر قسم کے ڈر سے بھی آزاد تھے۔ جہاں اپنے ہی ملک میں ہمارے ہم عصر و ہم پیالہ کوئی بات کہنے سے ڈرتے، وہیں ہم وہی بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے۔ بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتے۔

بدتمیزی دم توڑنے لگی

خیر جیسے ہی پاکستان آنا ہوا اور جگہ جگہ بلاگرز کی گمشدگی کی خبریں سنیں ہمارا دل بھی دہلنا شروع کیا۔ ہمیں بھی ڈر لگنے لگا کہ مصلحت کو سمجھیں اور خاموش رہیں۔ بڑے صحافیوں کے حالات تو خیر ہم سے بھی گئے گزرے تھے۔ ایک ریٹائرڈ بڑے صاحب کے وٹس ایپ میسجز پر چینلز کے چولہے چکی کا دارومدار تھا۔ ان کے کرتا دھرتا خود بھی چل رہتے اور ان کے اینکر بھی آئیں بائیں شائیں سے کام لیتے۔ مجبوری تو سب کی تھی۔ ہماری بدتمیزی آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی۔ اور ہم نے فیشن اور آرٹ کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا۔

'ملکی تاریخ میں آج تک ایسا وقت نہیں آیا جب آزادی اظہار اس قدر سلب ہو چکی ہو'

راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ کل صبح معروف اینکر طلعت حسین صاحب کی ایک ویڈیو نظروں سے گزری جس میں انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ یہ جبر کا نظام ملک کے مفاد کے بالکل خلاف ہے۔ جس طرح ایک میسج پر چینلز کا سسٹم کنٹرول کیا جاتا ہے یہ سراسر زیادتی ہے۔ ملکی تاریخ میں آج تک ایسا وقت نہیں آیا جب آزادی اظہار اس قدر سلب ہو چکی ہو۔

یہ سب سن کر ہمارے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہیں نواز شریف کی وطن واپسی پر طلعت حسین صاحب کی کوریج بھی یاد آ گئی۔ ابھی چند ہی دن پہلے اچھا خاصا بلاگ لکھا تھا کہ ہمارے ملک میں آزادی نہیں ہے۔ طلعت صاحب نے یہ علم اٹھا کر ہم پر گھڑوں پانی ڈال دیا کہ انسان اگر کچھ کہنا چاہے تو کوئی اسے نہیں روک سکتا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بدتمیزی نہیں بہادری ہے۔ اگر اتنا بڑا اینکر یہ سب کہہ سکتا ہے تو باقی سب تو کھیت کی مالی ہیں۔ کیا ضمیر صرف طلعت حسین کی ہی جاگیر ہے؟

استغفراللہ، بک رہی ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ؟

یہ دیکھ لیجئے۔ نہ نہ کرتے بھی ہم کیا کچھ کہہ گئے۔ طلعت صاحب کی ایک تقریر نے ہمیں دوبارہ بدتمیز بنا ڈالا۔ قانون کی پاسداری میں کبھی فرق نہ آنے دیں گے لیکن سچ کہنے سے بھی بھی نہیں ڈریں گے۔

اف استغفراللہ ۔۔۔ یہ ہم جنوں میں کیا ہذیان بک بیٹھے۔ معاف کیجئے گا، ضمیر طلعت حسین صاحب کی ہی میراث رہے۔ ہمیں اسے پالنے کا کوئی شوق نہیں۔ جان سب سے مقدم ہے۔ مانا کہ طلعت صاحب کو اس تقریر نے ہمارا ہیرو بنا دیا لیکن ہم پھر بھی زبان بندی کو اپنا شیوہ رکھیں گے۔ ہم بدتمیز تھوڑی ہیں۔ رب راکھا۔