'90 تو کیا، 180 دن میں بھی ضمنی انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے'

'90 تو کیا، 180 دن میں بھی ضمنی انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے'
ضمنی انتخابات سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کا بیانیہ بہت مبہم ہے اور عدالتیں بھی ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ ایک فیصلے میں جج کہتا ہے کہ خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب نہ کروایا جائے اور دوسرے فیصلے میں دوسرا جج کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن گورنر سے مشاورت کرکے 90 دن میں ضمنی انتخابات کا اعلان کرے۔ میں تجربے کی بنیاد پر بتا رہا ہوں کہ یہ الیکشن کسی صورت 90 دن میں ںہیں ہوتے نظر آ رہے اور اس کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے۔ جو صورت حال نظر آ رہی ہے اس میں تو مجھے لگتا ہے 180 دن میں بھی یہ انتخابات ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ یہ کہنا ہے سابق اٹارنی جنرل اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینج نے ضمنی انتخابات سے متعلق جیسا فیصلہ لکھا ہے تو میں کہوں گا کہ جہاں اتنا کچھ کہا ہے تو جج صاحب کو چاہئیے کہ الیکشن بھی خود ہی کروا لیں۔ ایک ہائی کورٹ کا جج پورے پاکستان کے الیکشن کمیشن کو حکم کیسے جاری کر سکتا ہے؟ جج صاحب کا یہ حکم غیر آئینی ہے۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن گورنر سے مشاورت کر کے انتخابات کا اعلان کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں سیاسی فیصلوں میں گھس گئی ہیں اور یہ غلط پریکٹس ہے۔ سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں میں لکھا ہوا ہے کہ عدالتیں اکیڈیمک سوالوں میں نہیں پڑیں گی۔ یہ باتیں وکیلوں کو چاہئیے تھا کہ ہائی کورٹ کو بتاتے مگر جب سے وکلا تحریکیں چلی ہیں وکلا اور ججز باہم شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج صاحب سمجھ رہے ہیں کہ وہ قانون سازی کر سکتے ہیں حالانکہ پاکستان کا آئین انہیں ایسی کوئی اجازت نہیں دیتا۔ مجھے امید ہے چیف الیکشن کمشنر ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گے جس میں آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی گورنر کی ایڈوائس پر تحلیل نہیں ہوئی اس لیے گورنر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اخیتار نہیں رکھتے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے میرا اختلاف ہی یہ ہے کہ جج صاحب نے لکھی ہوئی ہدایات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی طرف سے ایک نئی چیز تخلیق کر دی ہے۔ میری نظر میں یہ درست اقدام نہیں ہے۔ یہ مجھے تشویش کی بات نظر آ رہی ہے کیونکہ یہ رجحان بن رہا ہے کہ عدالتیں خود سے آئین اور قانون لکھنے لگ گئی ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں صوبے کے انتظامی سربراہ وزیر اعلیٰ کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا ہے۔

انتخابات ملتوی کروانے کے حوالے سے چیف سیکرٹریز، وزیراعلیٰ، سکیورٹی ایجنسیز، وزارت داخلہ اور وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کے سامنے گزارشات رکھ دی ہیں۔ الیکشن کمیشن ان کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ یہ وجوہات انتخابات کے التوا کے لئے کتنی ناگزیر ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرنے پہ متفق ہو جاتے ہیں تو پھر یہ فیصلہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں جانچا جائے گا۔ سیاسی طور پر انتخابات ملتوی کروانا پی ڈی ایم کے لئے مہنگا سودا ہے کیونکہ عوام یہی سمجھیں گے کہ حکومت ڈر کر انتخابات سے بھاگ رہی ہے۔

تجزیہ کار فوزیہ یزدانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس لامحدود اختیارات ہیں کہ وہ وقت پر الیکشن کروائے لیکن اگر وہ نہ کروائے تو کیا انہیں صدر پابند کر سکتا ہے، اس سوال کا جواب آئین میں نہیں ملتا۔ صدر اگر الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر بھی دیں تو الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار پھر بھی موجود ہے کہ وہ تحریری وجوہات بیان کرکے اس تاریخ میں تبدیلی کر سکتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج نے لیگل اجتہاد کرنے کی بات کی ہے تو جب ملک میں اس حوالے سے آئین اور قانون کی ہدایات موجود ہیں تو پھر لیگل اجتہاد کی ہمیں کیا ضرورت ہے۔ اس طرح آپ کے آئینی فرائض ادا نہیں ہو سکتے۔ عدالتیں اس طرح کے فیصلوں سے ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورت حال اور پولرائزیشن میں اضافہ کر رہی ہیں۔

پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی اور رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔