ایک زمانہ تھا جب سیٹھ عابد کا نام زبان زدِ عام تھا۔ آج سے چند برس قبل ان کا شمار پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ اب بھی اپنی net worth کے حساب سے وہ ملک کے 30 امیر ترین افراد میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔ گذشتہ روز کراچی میں ان کا انتقال ہوا تو یہ ایک عہد کا خاتمہ تھا۔ یوں تو سیٹھ عابد کا تعلق بابا بلھے شاہ کے شہر قصور سے تھا لیکن انہوں نے لاہور اور پھر کراچی ہی کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ وہ اردو اور پنجابی کے ساتھ میمنی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ سیٹھ عابد سے متعلق یوں تو بے شمار جھوٹی سچی کہانیاں مشہور ہیں لیکن عوام میں سب سے زیادہ مقبول پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے reprocessing plant کی سمگلنگ کی کہانی ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب 1974 میں بھارت نے Smiling Buddha پروجیکٹ کے تحت ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے لئے امریکی حکومت کی پابندیوں کے باعث یہ پلانٹ اوپن مارکیٹ سے درآمد کرنا ناممکن تھا لہٰذا اسے بلیک مارکیٹ سے خرید کر سمگل ہی کیا جا سکتا تھا۔ اس کام کے لئے جس شخص پر اعتبار کیا گیا، وہ سیٹھ عابد ہی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیٹھ عابد کا سمگلنگ کی دنیا میں اتنا مضبوط نیٹ ورک تھا کہ وہی اس کام کو سرانجام دینے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اب یہ بات کس حد تک سچ ہے، اس کے بارے میں مختلف آرا ہو سکتی ہیں مگر لوگوں کو اس کہانی پر اس لئے یقین ہے کہ یہ سیٹھ عابد کے نام سے منصوب ہے اور لوگوں کے تصور میں وہ ایسا کارنامہ سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
لیکن ان سے منصوب اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن پر یقین کرنا تو مشکل ہے لیکن اس پراسرار شخصیت کے بارے میں لوگوں کو عمران سیریز کی کہانیوں کی طرح یقین کر لینے کی عادت ہے۔ مثال کے طور پر ان سے ایک کہانی یہ بھی منصوب ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان پر کیسز بنائے گئے تو سیٹھ عابد کے لوگوں نے اس وقت برطانیہ میں موجود بینظیر بھٹو کو اغوا کر کے ان کی ذوالفقار علی بھٹو سے بات کروا دی تھی اور انہیں مجبور کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ ان کے خلاف بنائے کیسز ختم کر دیں۔ اب وہ کیسز ختم ہوئے یا نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ سیٹھ عابد پر کوئی بڑا مقدمہ تھا بھی تو وہ جنرل ضیاالحق کے دور میں ختم ہو گیا۔ ضیا دور میں ان پر بنے تمام مقدمات ختم کرنے کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا نے اپنے اہم ترین کرم فرما یعنی مسعود محمود کو نوازنے کے لئے ان پر یہ نوازشیں کیں۔ یہ وہی مسعود محمود ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی فیڈرل سکیورٹی فورس کے سربراہ تھے اور بعد ازاں ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بھی بنے۔ سیٹھ عابد ان کے برادرِ نسبتی تھے۔
نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں کہا جاتا ہے کہ سیٹھ عابد نے انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ انہیں پاکستان سے سمگلنگ کی کھلی چھٹی دے دیں تو بدلے میں پاکستان کا تمام قرضہ وہ خود اتارنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن نواز شریف نے ان کی یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سیٹھ عابد پاکستان کے بڑے سونے کے سمگلرز میں سے ہونے کے باوجود ملک کے معزز ترین افراد میں سے ایک تھے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جنرل ضیا نے ان پر بنے تمام مقدمات ختم کر دیے تھے اور اس کے بعد سیٹھ عابد نے ایک معتبر شہری کے طور پر زندگی گزاری۔ کچھ لوگ مذاقاً انہیں دنیا کا معزز ترین سمگلر بھی کہتے ہیں۔
جوئے کے حوالے سے بھی ان کے کئی قصے موجود ہیں۔ دبئی کے ایک اخبار میں 90 کی دہائی میں ایک خبر چھپی تھی کہ ایک شیخ سے جوئے میں بڑی رقم ہارنے کے بعد جب شیخ نے انہیں طعنہ دیا کہ اتنی بڑی رقم ہارنے کے بعد دبئی میں تمہاری گزر اوقات کیسے ہوگی تو سیٹھ عابد نے اس بلند و بالا عمارت کی اوپری منزل کی شیشے سے بنی دیواروں سے دبئی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی اور پوچھا، شیخ صاحب، آپ کی یہ دبئی کتنے کی ہے؟
تاہم، سیٹھ عابد کی ذاتی زندگی بہت سی مشکلات سے بھی عبارت ہے۔ سیٹھ عابد کے چار بچے تھے جن میں سے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ان کے دونوں چھوٹے بیٹے جڑواں تھے اور دونوں ہی گونگے بہرے تھے۔ بڑے بیٹے کو 2006 میں ان کے اپنے ہی گارڈ نے قتل کر دیا تھا۔ اپنی سمگلر کی حیثیت سے شہرت کے باوجود سیٹھ عابد ایک مذہبی آدمی بھی تھے اور ان کے چہرے پر اچھی خاصی لمبی داڑھی موجود تھی۔ بیٹے کے انتقال کے وقت بھی عینی شاہدین کے مطابق جماعتِ اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد ان کے گھر تشریف لائے تھے اور ان کے گلے لگ کر سیٹھ عابد خوب روئے تھے۔ وہ ملک کے مختلف شہروں میں کئی خیراتی ادارے بھی چلا رہے تھے۔
جمعہ 8 جنوری کو سیٹھ عابد کا انتقال ہو گیا۔ نمازِ جنازہ DHA، کراچی میں ادا کر دی گئی۔ نوجوان نسل نے اس پراسرار شخصیت کے بارے میں بہت کم سن رکھا ہے۔ ان کی سمجھ کے لئے یہ کہنا کافی ہوگا کہ آج سے چند برس قبل سیٹھ عابد کی وہی حیثیت تھی جو آج بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ دولت کے ان میناروں کی بنیاد میں بے شمار جرائم دبے ہیں۔ لیکن کوئی ان کا نہ تو کچھ بگاڑ سکتا تھا اور نہ ہی ان کے خیراتی کام دیکھنے کے بعد لوگوں میں ان کے لئے وہ نفرت موجود تھی جو ایک عام مجرم کے لئے ان کے دلوں میں ہوا کرتی ہے۔