جب سے ہوش سنبھالا ہے، عید میلاد النبیؐ کے جلوسوں پر بحث ہوتی دیکھ رہا ہوں۔ مذہبی بحثیں تو اپنی جگہ ہیں، میرے نزدیک ان جلوسوں کا تعلق مذہب سے زیادہ ثقافت سے ہے۔ بڑے بتاتے ہیں کہ ہر سال پہاڑیاں بنتی تھیں، ٹرالیاں سجتی تھیں، پھر ان پر انعامات ملا کرتے تھے۔ لاہور میں سب سے کڑا مقابلہ کرشن نگر اور بھاٹی گیٹ کا ہوا کرتا تھا۔ یہ ٹرالیوں اور پہاڑیوں کا مقابلہ تو بچپن میں دیکھ رکھا ہے۔
کئی ہفتوں ٹرالیاں سجا کرتی تھیں۔ ان میں نعتیں لگی رہتیں، بچے کھیلتے رہتے، بڑے کاموں میں لگے رہتے۔ گلی محلے کے بچے گھروں میں چندہ مانگتے۔ ہمارے چاچا اور ان کے دوست مل کر ساری گلی سجاتے۔ گلی میں لائٹیں لگتیں، بلب جلتے، رنگ برنگی تاریں ایک سرے سے دوسرے سرے تک باندھ دی جاتیں۔ 11 ربیع الاول کی شام ہوتی تو یوں لگتا تھا سارے تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔ سب لڑکے گلی میں کھڑے رہتے، کام نمٹاتے رہتے۔ گھر جانے کا دل ہمارا بھی نہیں کرتا تھا۔ گھر والئ زبردستی لے جاتے تھے۔ باہر گلی میں اتنی لائٹنگ ہوتی تھی، کہ اس رات کھڑکی سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ اس کھڑکی کی طرف دیکھتے دیکھتے کب نیند آ جاتی، پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔
صبح ہوتے ہی سب بچے مشن پر نکل کھڑے ہوتے۔ کسی کا گھر بن رہا ہوتا، کوئی گلی مرمت ہو رہی ہوتی، کسی کا صحن پکا ہو رہا ہوتا، تو ہم جا کر ان کے گھر سے ریت اور سیمنٹ جھولیوں میں بھر بھر کے لے آتے۔ گھر کے سارے کھلونے پہاڑی میں استعمال ہوتے۔ ان پہاڑیوں میں ایک نہر لازمی نکالی جاتی تھی، جس کے دونوں اطراف پاکستانی اور بھارتی فوجی ہوتے۔ بھارتی فوجی زیادہ تر گرے ہوئے ہوتے کیونکہ مقصد پاکستان کی فتح دکھانا ہوتا تھا۔
اس کام سے فارغ ہو کر کسی ایک دوست کے ابو کے ساتھ سب بچے علاقے کی سب پہاڑیاں دیکھنے جاتے۔ اپنی پہاڑی کے بے ڈھنگے پن پر شرمندہ ہوتے، اور وعدہ لیتے کہ اگلے سال ہمیں زیادہ پیسے دیے جائیں گے تاکہ بہتر پہاڑی کا انتظام ہو سکے۔
لیکن دن کی دلچسپ ترین activity شام کو ٹرالیوں کا جلوس ہوا کرتا تھا۔ سب بچے بڑے سڑک کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر سجی ہوئی ٹرالیوں کا یہ عظیم الشان جلوس دیکھتے۔ کہیں کوئی منہ سے آگ نکال رہا ہے، کہیں کوئی موٹر سائیکل پر گڑیا بٹھا کر گول گول گھما رہا ہے، کہیں سبیل لگی ہے، شربت پیے جا رے ہیں، انہی میں کوئی ٹرک اچانک نمودار ہوتا ہے جس پر نہ کوئی ماڈل سجا ہے، نہ نعتیں لگی ہیں، بس چاروں طرف پردہ ہے اور اندر فل آواز میں ’چولی کے پیچھے کیا ہے‘ لگا کر لڑکے ناچ رہے ہیں۔
ان پر کوئی کفر کا فتویٰ نہیں لگاتا تھا۔ ایک آدھ انکل ہوتے تھے جو کہہ دیتے تھے کہ اتنے مقدس دن پر ایسی ہلڑ بازی نہیں کرنی چاہیے لیکن سب ناچتے رہتے، ارد گرد کھڑے لوگ انہیں دیکھتے ہنستے رہتے۔ گولی والی بوتل والے کی تو اس رات چاندی ہوتی تھی۔
مگر یہ سب باتیں تھیں ہوش سنبھالنے سے پہلے کی۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے بحثیں ہی ہوتی دیکھ رہا ہوں۔ کچھ کے نزدیک تو یہ شرک اور بدعت ہے۔ ان سے تو علما ہی بات کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ گانے لگانا، خواجہ سراؤں کو نچانا، بھنگڑے ڈالنا، لڑکیوں کو چھیڑنا ایسے معاملات ہیں جن پر جہلا کو بھی رائے زنی کا حق ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اسی سلسلے میں بات کرتے ہیں۔
ہم عید والے دن صبح سو کر اٹھتے ہیں، جلدی جلدی نہا کر کپڑے بدلتے ہیں، نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ واپس آتے ہیں، تو سیدھے قبرستان۔ بکرا عید پر پہلے گلیوں کو خون سے رنگتے ہیں، اس کے بعد نماز، اور پھر قبرستان۔ باقی کا سارا دن گوشت بنوانے اور لوگوں کے گھروں میں دے کر آنے میں لگ جاتا ہے۔ رات کو خبرنامے میں بتا دیا جاتا ہے کہ ملک بھی میں عید الاضحیٰ کا دن ’انتہائی عقیدت و احترام‘ سے منایا گیا۔
اب چاہے کوئی عید ہو یا شبِ برات، محرم ہوں یا کوئی اور موقع، ’انتہائی عقیدت و احترام‘ سے ہی منایا جاتا ہے۔ 14 اگست، 23 مارچ، 6 ستمبر، 25 دسمبر جیسے غیر مذہبی تہواروں پر فوجی پریڈ ہو جاتی ہے۔ افسوس، مذہبی تہواروں پر ابھی تک یہ سلسلہ نہیں شروع کیا گیا جا سکا۔ مگر کیا کوئی ’جوش و خروش‘ والا تہوار بھی ہے؟ جس میں سب ناچتے گاتے ہوں، ہلہ گلہ کرتے ہوں، ہنسی مذاق کرتے ہوں؟
ایک بسنت ہوتی تھی۔ فرید پراچہ پتہ نہیں اب کہاں ہوتے ہیں، کیا کرتے ہیں، فرماتے تھے ’او جی چھتوں پر آنکھ مٹکّے ہوتے ہیں‘۔ اب آپ بسنت پر نہیں ہونے دیں گے تو ظاہر ہے وہ آنکھ مٹکّے کسی اور موقع پر ہوں گے۔ رکیں گے نہیں۔ لڑکیوں پر پہرے لگا دیں گے تو خواجہ سراؤں سے ہو جائیں گے۔ مگر رکیں گے نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک گھٹا ہوا معاشرہ ہے۔ یہاں تنفس کے مواقع عوام کو میسر نہیں۔ شیخ رشید خوش شکل ہیں لیکن آخر کتنے گھنٹے آدمی نیوز چینلز پر یہ شکل دیکھتا رہے؟ انٹرٹینمنٹ چینل لگاؤ تو اسی ادارے کی کوئی اور پروڈکشن چل رہی ہوتی ہے، یا پھر وہ دو پیاری سی بہنیں ہیں، جو ہر وقت روتی رہتی ہیں، کبھی اِس ڈرامے میں تو کبھی اُس ڈرامے میں۔ لوگوں کو جب خوش ہونے کے مواقع نہیں ملیں گے تو یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔
یہاں بھی میوزیکل کنسرٹس ہوں، اچھی فلمیں بنیں، ٹی وی چینلز پر تخلیقی کام ہو، تو عوام میں نہ صرف عمومی شعور بیدار ہوگا، بلکہ ان کے جذبات بھی موقع کی مناسبت سے باہر آئیں گے۔
آخر میں، ایک آسان سا انتظامی طریقہ ہے اس کام کو روکنے کا، وہ بھی کر کے دیکھ لیں، یقین کریں، افاقہ ہوگا۔ لاہور میں تین چار حلقوں میں ہی عوام کو آخر تھوڑی زیادہ آئی ہوتی ہے۔ ان کے ایم این اے اور ایم پی ایز کو بلا کر احکامات جاری کریں کہ اپنے اپنے علاقے کے ایس ایچ اوز کی ایک میٹنگ بلائیں اور انہیں صاف الفاظ میں بتا دیں کہ اگر ایک جگہ سے بھی گانے کی آواز آئی تو انہیں معطل کر دیا جائے گا۔ آزمودہ فارمولا ہے، گانا چلا کر دکھا دے پھر کوئی مائی کا لعل۔