اسلام آباد ماڈل کالج میں معاشرتی علوم کے ٹیچر ، عمر محمود نے لیکچر کے دوران حضرت عمر پر لیکچر دینا شروع کیا۔ شیعہ سٹوڈنٹ قلب عباس نے رد عمل دیا۔ پاس بیٹھے سٹوڈنٹس محمد وقاص اور اعجاز خان نے اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور دیگر 10 سے 13 سٹوڈنٹس بھی اس 'کارِ خیر' میں شامل ہو گئے ۔ جلد پرنسپل اور دیگر ٹیچرز کلاس میں جمع ہوئے ، شاہدین کے مطابق مجمع جذباتی اور مشتعل تھا ، قلب عباس کو تھانے کے حوالے کر دیا گیا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوئی ۔ کالعدم دہشتگرد تنظیم سپہ صحابہ کا عبد الرحمان معاویہ بمعہ وفد کے تھانے آ پہنچا اور معاملے کو بھڑکانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اس وقت قلب عباس تھانے میں ہے ۔
اب کچھ سوالات :
معاشرتی علوم کے ٹیچر نے لیکچر چھوڑ کر اپنے مذہبی عقیدے کا اظہار کیوں کرنا شروع کیا تھا؟ صحابہ کے بارے میں بات کرنا توہین کے زمرے میں کیوں کر آ سکتی ہے ؟ دس سے بارہ سٹوڈنٹس نے قلب عباس پر کس قانون کے تحت حملہ کیا اور مارا پیٹا ؟ اگر یہ مشتعل ہجوم اس کی جان لے لیتا ، تو ہیرو بن جاتا ؟
معاملہ حد سے زیادہ خراب ہوتا جا رہا ہے ۔ مدرسے تو مدرسے ، سرکاری سکول بھی تکفیر کی فیکٹریاں بنتی جا رہی ہیں۔ اپنے مذہبی نظریات کو سٹوڈنٹس کے دماغوں پر زبردستی مسلط کرنے کی روایات عام ہے۔ اگر کوئی آپ کے مذہبی نظریات سے متفق نہ ہو تو اسے مار دو ، جلا دو ۔ اساتذہ کی نگرانی کا کوئی انتظام نہیں ، وہ کیا پڑھا رہا ہے۔ کیوں پڑھا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور یہ صورتحال یہاں تک محدود نہیں رہے گی ۔ آج ایک قلب عباس ہے، کل ہزاروں ہونگے۔ کیونکہ تکفیری نصاب پاکستانی سکولوں میں رائج ہو چکا ہے ۔ اس نصاب میں غیر مسلموں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ شیعہ مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اگر کوئی اس نصاب سے متفق نہیں ہے تو سرکاری پالیسی کے مطابق وہ کلاس روم سے باہر چلا جائے۔ اس نصاب میں صرف اور صرف ایک مذہبی شدت پسند فرقے کے نظریات کا پرچار ہے۔ وہی فرقہ جو اسمبلی میں ناموس صحابہ بل پیش کرتا ہے تاکہ ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی جائے۔
پاکستان ، بیرونی اندرونی دونوں طرف سے بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے ۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے چیخ سکتے ہیں ، سو چیخ رہے ہیں ۔ جو کچھ کر سکتے ہیں وہ مجبور ہیں یا شاید اس صورتحال سے خوش ہیں۔