قائد اعظم کی موت طبعی تھی یا قتل؟

قائد اعظم کی موت طبعی تھی یا قتل؟
وقت بہت سی حقیقتوں کو آشکار کرتا ہے۔ جن کو ہم تاریخ کی کتابوں میں شائع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر حقیقتیں خود ہی وقت کے ساتھ سامنے آ جاتی ہیں۔ انجیل مقدس میں کہیں حضرت یسوع کا قول پڑھا تھا کہ گناہ خود ہمیں گنہگار تک لے جاتا ہے۔ چاہے تاریخ کے صفحات پر کتنی دھول ڈالی جائے، سچ سامنے آ جاتا ہے۔

قائد اعظم کی موت سے کئی سوال جڑے ہیں۔ جن کو آج تک کبھی کسی نے اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ مگر یہ سوال آج بھی زندہ ہیں۔ کیا قائد کا انتقال ہوا؟ یا ان کو مکمل منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب آج تک نہیں دیا گیا۔ 1949 میں کرنل الٰہی بخش نے ’قائد کے آخری ایام‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

کرنل الٰہی بخش کی کتاب کا دیباچہ محترمہ فاطمہ جناح نے لکھا۔ کتاب میں الٰہی بخش نے قائد کے آخری ایام سے جڑے واقعات پر قلم اٹھایا۔ کتاب میں قائد کےعلاج میں ہوئی کوتاہيوں کو پہلی بار آشکار کیا۔ اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آئے۔ احتجاج کے خوف سے لیاقت علی خان نے کتاب پرپابندی لگا دی۔

قائد کے قتل اور اس سے جڑے لوگوں پر پردہ ڈالنے کے لئے سرکار نے قائد کی سرکاری سوانح حیات لکھوانے کا فیصلہ کیا۔ اس کام کے لئے انگریز صحافی ہیکٹر بولیتھو کا انتخاب کیا۔ فاطمہ جناح نے ان سے کسی بھی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کیا۔ ہیکٹر صاحب صدارتی الیکشن کے ایام میں ایوب خان کے حق میں مضامین لکھتے رہے۔

1954 میں ہیکٹر کی کتاب Jinnah: Creator of Pakistan منظر عام پر آئی۔ 1955 میں فاطمہ جناح نے اس کتاب کا بھرپور جواب لکھا جو ’مائی برادر‘ کے نام سے شائع تو ہوئی مگر اس پر ریاست مخالف ہونے کا الزام لگا کر پابندی لگا دی گئی۔ یہ کتاب 32 سال بعد 1987 میں دوبارہ چھپی مگر بہت سا مواد حذف کر دیا گیا۔

قائد کی وفات کی کہانی 11 ستمبر 1948 کی صبح کو شروع ہوتی ہے جب کراچی سے دو جہاز کوئٹہ آئے۔ قائد کے لئے ان کے خصوصی طیارے وائی کنگ میں دو سیٹوں کو جوڑ کر بستر بنایا گیا۔ جب کرنل الٰہی بخش نے جہاز میں موجود آکسیجن کے سلنڈرز کو دیکھا تو ان میں آکسیجن بہت کم تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کس نے کیا؟

ایک بیمار آدمی جس کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ چکے ہوں، اس کے لئے آکسیجن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر کراچی سے بھیجے گئے جہاز میں آکسیجن سلنڈر میں آکسیجن کی مقدار بہت کم کیوں رکھی گئی؟ کرنل الٰہی بخش کے بقول کوئٹہ کے ڈاکٹروں نے قائد کے لئے آکسیجن سے بھرے سلنڈرز کا انتظام کیا۔

دو بجے قائد کا جہاز کوئٹہ سے کراچی آنے کے لئے محو پرواز ہوا۔ قائد کا جہاز چار بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترا۔ قائد کو فوجی ایمبولنس میں منتقل کیا گیا۔ قافلے کی منزل گورنر جنرل ہاؤس تھا۔ قافلہ روانہ ہوا۔

قائد کے ساتھ ایمبولنس میں فاطمہ جناح اور نرس سسٹر فلس ڈنہم سوار ہوئیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر مشتری اور کرنل نولز کیڈلک کار میں سوار ہوئے۔ ضروری سامان ٹرک پر لاد دیا گیا۔ گورنر جنرل ہاؤس ماڑی پور سے 9 میل دور تھا۔ فوجی ایمبولنس نے چار میل کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک جھٹکے کے ساتھ بند ہو گئی۔

ڈاکٹر الٰہی بخش کے بقول انہوں نے ڈرائیور سے پوچھا تو بتایا گیا کہ انجن خراب ہو گیا ہے۔ یہی بات فاطمہ جناح کو بتائی گئی۔ 20 منٹ تک ڈرائیور نے ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ تنگ آ کر فاطمہ جناح نے کرنل نولز کو دوسری ایمبولنس لینے کے لئے بھیجا۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر مستری کو بھی بھیجا گیا۔

یہ قافلہ ایک گھنٹے سے زائد ماڑی پور کے جنگل میں کھڑا رہا۔ دوسری ایمبولنس لانے میں بہت وقت صرف ہوا۔ بقول سردار شوکت حیات کے، اس وقت کراچی کے ملٹری اور نیول اسپتالوں میں بہترین ایمبولنسز موجود تھیں۔ تو قائد کو خراب آرمی ایمبولنس کس نےدی؟ اور جب دوسری ایمبولنس کے لئے بھیجا گیا تو وہ مل نہ سکی۔

یہاں پر ایک اور بات حیران کن ہے۔ قائد نے 29 اگست کو یہ بات کہی کہ وہ کراچی کے گورنر ہاؤس میں ٹھہرنے کی بجائے ملیر میں نواب بہاولپور کی رہائش گاہ پرٹھہرنا چاہتے تھے۔ پھر ان کو گورنر جنرل ہاؤس کون لے کر گیا؟

گورنر جنرل ہاؤس پہنچ کرقائد کی حالت کا جائزہ لیا گیا۔ وہ گہری نیند میں تھے۔ ملٹری سیکرٹری کرنل نولز کو ایک نرس کا اہتمام کرنے کا کہا گیا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے کراچی کے دو ڈاکٹروں کو بلانا چاہا۔ کرنل مظہر حسین شاہ اور کرنل سعید احمد۔ اطلاع دینے پر بھی دونوں نہیں آئے۔ سوال ہے یہ کہاں تھے؟

قائد کے لئے دوسری نرس کا اہتمام نہ ہو سکا۔ حیرت ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں نرسوں کا قحط کیسے پڑ گیا۔ 7 بجے شروع کی گئی اس بھاگ دوڑ میں 8 بج کر 20 منٹ ہو گئے۔ قائد کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔ اس دوران ان کو دل کی دوا کا انجکشن لگایا گیا مگرقائد نہ سنبھل سکے۔ قائد کے آخری الفاظ کیا تھے؟ یہ بھی معمہ ہے۔

فاطمہ جناح کے بقول قائد کے آخری الفاظ تھے، ’’فاطی، خدا حافظ، لاالہ الااللّہ محمدالرسول اللّہ‘‘۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کے بقول آخری الفاظ تھے، ’’نہیں، میں زندہ نہیں رہوں گا‘‘۔ ڈاکٹر ریاض شاہ کے بقول یہ الفاظ تھے، ’’اللّہ پاکستان‘‘۔ ریاض شاہ کے انکشافات ایوب دور میں سامنے آئے کہ قائد کو بہن کی نہیں وطن کی فکر تھی۔

علالت کے دوران ایک واقعہ عجیب ہوا۔ 7 اگست بروز عیدالفطر یہ اعلامیہ جاری ہوا کہ قائد علالت کی وجہ سے یوم آزادی کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔ 15 اگست کو قائد کے نام سے جعلی پیغام نشر کیا گیا جس سے کئی افواہوں نے سر اٹھایا۔ افسوس یہ راز کبھی نہ کھل سکے کہ قائد کے ساتھ کیا ہوا؟

قائد کے آخری ایام کی کہانی ان کے ملٹری سیکرٹری مظہر احمد نے لکھی ہے جن کا تعلق پاک بحریہ سے تھا۔ مظہر احمد کچھ عرصے بعد ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں اپنی اہلیہ سمیت شہید ہو گئے۔ ایسا ہی ایک حادثہ لیاقت علی خان کے قتل کے تحقیقی کمیشن کے ساتھ ہوا۔ ذیل میں قائد کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ۔

حوالہ جات:

  • قائد اعظم کا آخری سال؛ فرخ امین

  • قائداعظم کے آخری ایام؛ ڈاکٹر الٰہی بخش

  • میرا بھائی؛ فاطمہ جناح

  • حیات قائد کا آخری سال؛ ریاض شاہ

  • World scholars on Quaid Azam - by AH Dani

  • Quaid Azam as I know - by Isphahani

  • Dawn Karachi: August and September 1948