اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اور ہتھیار ان کا منہ پر مکرنا ہے

اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اور ہتھیار ان کا منہ پر مکرنا ہے
ہم نیوز کے لئے مہر بخاری کے پروگرام میں فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کی جانب سے خواتین اساتذہ پر ڈریس کوڈ نافذ کرنے کے احکامات پر بات ہوئی اور جیسا کہ ہمارے نجی ٹی وی چینلز کا وطیرہ رہا ہے کہ قومی اہمیت کے حامل معاملات میں سے بھی ریٹنگز کشید کرنا ہی ان کا اصل مطمع نظر ہوتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ مہر بخاری یقیناً اس معاملے کو اٹھانا چاہتی ہوں گی۔ وہ خواتین کے حقوق کو اس لئے بھی اجاگر کرتی ہیں کیونکہ وہ پاکستانی میڈیا اینکرز میں بدترین قسم کے ذاتی حملوں کا نشانہ بننے والی اولین اینکرز میں سے ایک تھیں۔ اور ان پر ہوئے حملوں میں بڑے بڑے سینیئر صحافیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ لیکن ان کے سامنے بھی مسائل وہی آڑے آتے ہیں جو ہماری میڈیا انڈسٹری کے لئے دراصل دردِ سر ہیں۔

لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ حکومت کی نمائندگی کے لئے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گِل صاحب کو تشریف لانے کو کہا جائے جب کہ دوسری جانب سینیئر اینکر غریدہ فاروقی تھیں۔ غریدہ فاروقی کے لئے بے حد احترام کے باوجود عرض ہے کہ یہ معاملہ تعلیمی اداروں کا معاملہ تھا اور یہاں حکومتی مؤقف کا ذکر ضرور کیا جا سکتا تھا جس کے لئے ڈائریکٹوریٹ کی ہی کسی پریس ریلیز سے کام چلایا جاتا لیکن پروگرام کے شرکا میں ماہرین ہونے چاہیے تھے جو تعلیم، خواتین کے حقوق، جنسی اور ذہنی تشدد کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے والے محققین یا قانون دان ہوتے تاکہ ایک تو گفتگو تہذیب کے دائرے میں رہ کر کی جاتی اور سننے والوں کو بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملتا۔ غریدہ کو بطور ایک ورکنگ جرنلسٹ کے اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دینا سمجھ میں آتا ہے لیکن کم از کم اس پر بات چیت کے لئے حکومت کی جانب سے بھی کسی تہذیب یافتہ شخص کو بلایا جا سکتا تھا۔ اصل مقصد مگر ریٹنگز تھا۔

وہ مقصد پورا ہوا۔ اس روز ہم ٹی وی کے یوٹیوب چینل پر چلنے والے تمام پروگرامز میں اس پروگرام کو سب سے زیادہ دیکھا گیا اور پھر اس پروگرام میں سے ایک ڈیڑھ منٹ کا کلپ نکال کر علیحدہ سے چلایا گیا جس پر تادمِ تحریر تقریباً اتنے ہی ویوز ہیں جتنے مکمل پروگرام پر موجود ہیں۔ اس کلپ میں شہباز گل صاحب فرما رہے ہیں کہ آپ جتنے مرضی کم کپڑے پہن کر سڑکوں پر آئیں، میں آپ کو سپورٹ کروں گا۔ حالانکہ یہ اپنے آپ میں کسی بھی خاتون کے لئے ایک مشکل صورتحال ہو سکتی ہے کہ وہ گھر سے نکلے اور باہر شہباز گل صاحب انہیں سپورٹ کرنے کے لئے کھڑے ہوں۔ گویا انہیں کسی کی سپورٹ کی ضرورت ہوگی اور یہ بات خود شہباز گل صاحب بھی مان رہے ہیں۔ اور پھر انہوں نے انتہائی ذو معنی انداز میں غریدہ فاروقی کو جواب دیا کہ آپ کل سے کم کپڑے پہننا شروع کریں اللہ کا نام لے کر۔ ان کا یہ بھونڈا جواب غریدہ فاروقی کی جانب سے اٹھائے گئے ایک انتہائی اہم نکتے کا ردِ عمل تھا کہ حکومت کی جانب سے خواتین پر ہوئے حملوں کا ذمہ دار ان کے لباس کو قرار دیا جاتا ہے، اور یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے۔ لیکن شہباز گل صاحب نے اس کا کوئی پی ایچ ڈی والا جواب تو دینا نہیں تھا۔ ان سے ایسی ہی ذو معنی گفتگو کی توقع تھی جس سے مزید واضح ہو جائے کہ موجودہ حکومت میں اس ملک کی کوئی عورت محفوظ نہیں۔ اور اس کو سب سے بڑا خطرہ اس حکومت کے ترجمانوں اور کابینہ اراکین بشمول وزیر اعظم عمران خان کی سوچ سے ہی ہے۔

شہباز گل مسلسل پروگرام میں مذہب کارڈ کھیلتے رہے۔ انہوں نے بات ہی یہاں سے شروع کی کہ مغرب زدہ اشرافیہ کو اسلام سے خوف ہے۔ لوگوں کو گناہ و ثواب سمجھاتے رہے۔ غریدہ فاروقی پر ذاتی حملے کرتے رہے۔ خود کو ملک کی امیج کا ٹھیکیدار ثابت کر کے یہ بتاتے رہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق پر آواز اٹھانے والے ملک کو بدنام کرنے کی سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں جب کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔ امریکی ریاست ایریزونا کے کسی سکول کا ڈریس کوڈ اٹھا لائے جو ان کے سوشل میڈیا والے لا کر ان کو کہیں سے دے دیتے ہیں تاکہ یہ اپنے الٹے سیدھے فیصلوں کا دفاع کر سکیں۔ اور جب خواتین کی آزادی کی بات کی گئی تو غریدہ فاروقی کے لباس کو موضوعِ بحث بنایا اور انہیں کم کپڑے پہننے کی دعوت دیتے رہے جس پر غریدہ نے انتہائی کرارا جواب دیا کہ اس حکومت میں تمام مردوں کا یہی مائنڈ سیٹ ہے۔ ان کے نزدیک عورت کی آزادی کم کپڑوں سے شروع ہو کر اس کی آزادی تنگ کپڑوں پرختم ہو جاتی ہے۔

پھر شہباز گل صاحب نے فرمایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کبھی کہا ہی نہیں کہ عورت کا لباس اس کے ریپ کی وجہ بنتا ہے بلکہ یہ تو لبرلز نے ایسے ہی بات پھیلا دی، اصلی انٹرویو کے کلپ میں نہ تو وزیر اعظم نے یہ بات کی تھی اور نہ ہی غیر ایڈٹ شدہ کلپ میں اس قسم کی کوئی بات تھی۔ مہر بخاری نے مکمل کلپ چلا دیا جس میں وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی عورت مختصر لباس پہنتی ہے تو یقیناً اس کے مردوں پر اثرات ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ روبوٹ نہیں ہوتے۔ ساتھ وہ کلپ بھی چلایا گیا جس میں وہ اپنی پچھلی کہی بات کی نفی کر رہے تھے تو اس پر شہباز گل صاحب نے صاف کہا کہ انہوں نے دیکھ لیجئے بالکل نہیں کہا کہ خود عورت ذمہ دار ہے۔ غریدہ فاروقی نے حکومتی بیانیے میں موجود اس کنفیوژن کی طرف اشارہ کیا تو شہباز گل نے کہا کہ یہ قطعاً کنفیوژن نہیں ہے۔

شاید اصل مسئلہ اس حکومت کا کنفیوژن کبھی بھی نہیں تھی۔ اصل مسئلہ یہی ہے جو اس بحث سے سامنے آیا۔ اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اور ہتھیار بھی ان کا منہ پر مکرنا ہے۔ جب تک یہ طاقت ان کے پاس ہے، کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔