چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس مسرت ہلالی کی بطور ریگولر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی توثیق کے معاملے پر بات چیت کے لیے جمعرات 13 اپریل کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کا اجلاس طلب کر لیا۔
یکم اپریل 2023 سے جسٹس ہلالی پشاور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان بندیال کریں گے جبکہ اس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج صاحبان، ایک سابق جج، وفاقی وزیر قانون، ملک کے اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کیا جانب سے منتخب کردہ ایک سینئر وکیل اور صوبائی اور اسلام آباد بار کونسلوں میں سے ایک، ایک نمائندہ شامل ہو گا۔
اعلیٰ عدالتوں میں جج صاحبان کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو تصدیق کے بعد چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کا نام پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ یہ پیشرفت چیف جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے درمیان تین دنوں میں دوسری اہم ملاقات ہوئی۔ دونوں ججز کے درمیان ہفتہ وار تعطیل کے دوران بھی طویل ملاقات ہوئی۔
ذرائع کے مطابق گفتگو میں سپریم کورٹ سے متعلق موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔ جسٹس عیسیٰ نے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں بھی اپنی حاضری پر بات کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا وضاحتی بیان چیف جسٹس کی مشاورت سے جاری ہوا۔
یہ ملاقات اس لیے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ کچھ عرصے سے سپریم کورٹ میں واضع اختلاف نظر آتا ہے اور مختلف ججوں کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق معاملات پر متضاد خیالات کا اظہار کیا گیا۔
3 اپریل کو سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھ کر درخواست کی کہ جسٹس مظاہر علی نقوی پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سےسپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کا اجلاس بلایا جائے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آنے کے بعد جسٹس مظاہر نقوی کو تنقید اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے بطور جج ٹینیور کے دوران مظاہر نقوی اور ان کے خاندان کے افرادنے ان اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک سے زائد شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ شکایات پر سنوائی کے لیے جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کیا جانا چاہیے تاکہ واضح ہو سکے کہ جج پر لگنے والےالزامات میں کوئی صداقت ہے یا نہیں؟ جج پر لگنے والے الزامات درست ہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اگر الزامات درست نہیں ہیں تو جج کی عزت بحال کرنے کے لیے اقدامات ہونے چاہیئں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ پر سےعوام کا اعتماد کم ہوچکا ہے۔ عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
خط ایسےوقت میں سامنے آیا جب بلوچستان بار کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل سے جسٹس نقوی کے خلاف ریفرنس شروع کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
ریفرل میں جسٹس نقوی کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ جج کی آڈیو لیکس نے عدالت کی آزادی اور وقار کے بارے میں خدشات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہےجو کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ ریفرنس میں کہا گیا کہ جسٹس نقوی کے ساتھ آرٹیکل 209 کے مطابق کارروائی کی جائے اور ان کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
اس سے قبل پاکستان بار کونسل نے بھی جسٹس نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا اور مبینہ آڈیو لیک پر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔