افغان دارالحکومت کابل میں چینی باشندوں کے ایک ہوٹل پر نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کر دیا۔ہوٹل کی عمارت کے قریب زوردار دھماکے اور فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق پیر کے روز کابل میں شہر نو کے علاقے میں واقع ہوٹل پر حملہ ہوا جو چینی تاجران کی رہائش گاہ ہے۔ حملہ آور ہوٹل کے اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی۔
عینی شاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ "یہ ایک بہت زور دار دھماکہ تھا اور پھر بہت زیادہ گولیاں چلیں۔"
سیکیورٹی حکام کی جانب سے آپریشن کیا گیا جس میں 3 حملہ آور مارے گئے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ تمام غیر ملکی محفوظ ہیں۔ حملے سے بچنے کی کوشش میں بالکونی سے کودنے کے نتیجے میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
https://twitter.com/Zabehulah_M33/status/1602281195882311680?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1602281195882311680%7Ctwgr%5Ecb0117580b9bafc7bd2b16eaf6fe665d3369f228%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.independenturdu.com%2Fnode%2F123176
گذشتہ روز کابل میں چین کے سفیر وانگ یو نے نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی تھی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
چینی سفیر نے افغانستان کی مجموعی سکیورٹی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے افغان حکومت پر زور دیا تھا کہ کابل میں چینی سفارت خانے کی سکیورٹی پر مزید توجہ دی جائے۔
نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے افغانستان کے عوام کو چین کی جانب سے انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد پر اظہار تشکر کرتے ہوئے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط اور وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
انہوں نے چینی سفیر کو یقین دلایا تھا کہ افغان حکومت کسی کو بھی اجازت نہیں دے گی کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں غیر ملکی سیاسی مشنز کی حفاظت ’امارات اسلامیہ‘ کی ترجیح ہے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ ہوا تھا۔ پاکستانی سفیر قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے جب کہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے پاکستانی مشن کے ہیڈ کی حفاظت پر مامور پاکستانی سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہوا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ داعش خراساں نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
دوسری جانب طالبان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ سال اگست میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے قومی سلامتی میں بہتری آئی ہے لیکن متعدد بم دھماکے اور حملے ہو چکے ہیں جن میں سے کئی کا اعتراف داعش کے مقامی گروپ نے کیا ہے۔