پاکستان میں جمہوریت گجرات کے چودھریوں کی لونڈی ہے

پاکستان میں جمہوریت گجرات کے چودھریوں کی لونڈی ہے
اس ملک کے عوام نے بھی کیا بدقسمتی پائی ہے کہ کہنے کو یہاں جمہوری نظام قائم ہے اور اربوں روپے لگا کر ملک میں انتخابات بھی ہوتے ہیں، ووٹ بھی پڑتے ہیں مگر حکومت کس کی بنے گی یہ معاملہ نہ تو عوام طے کرتے ہیں اور نہ ہی اکثریتی جماعت۔ اس ملک میں حکومت بننے کا معیار پاور پالیٹکس ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر ایوب دور اور پھر وہاں سے 2022 کے آخر تک اس ملک میں چاہے مارشل لا رہا ہو یا نام نہاد جمہوری نظام، اس ملک کو چلانے یا اس نظام کو لپیٹنے میں کبھی بھی ملک کے پاپولر لیڈر یا جماعت کا ہاتھ نہیں رہا۔ ہمیشہ سے دھڑے بندیوں کے نتیجے میں پریشر گروپ تشکیل پاتے رہے یا تشکیل دیے جاتے رہے جن کی منشا اور بلیک میلنگ سے حکومتیں بنتی اور گرتی رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ ساڑھے 3 سو کے قریب اسمبلی کی نشستوں میں سے کوئی جماعت 100 سے زائد یا 150 نشستیں بھی حاصل کرے تو وہ آزادانہ فیصلہ نہیں کر سکتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی میں جن پر تھوکتی رہی ہے ان کو مائی باپ بنائے اور 8 سے 10 سیٹوں والی جماعت کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر اس کی منشا کے مطابق حکومت بنائے اور چلائے۔

ماضی میں زیادہ دور جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، وطن عزیز کی موجودہ سیاست کو ہی ملاحظہ کر لیں۔ پورے ملک میں سیاست کرنے والی تین بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ہیں مگراقتدار اور اختیار یا تو گجرات کے چودھریوں کے پاس ہے یا بہادر آباد میں بیٹھی چند نشستوں والی ایم کیو ایم کے پاس۔

کیا ہی ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر میں مانے جانے والے سربراہان چاہے وہ سابق صدر آصف زرداری ہوں یا سابق وزیر اعظم عمران خان ہوں یا موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی جماعت ہو، ہمیں یا تو گجرات کی طرف منہ کرکے ترلے کرتے نظر آتے ہیں یا پھر لاہور میں ظہور الہی روڈ پر منتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

کہنے کو تو مسلم لیگ (ق) اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کی اتحادی جماعت ہے مگر اتحاد کے نام پر اختیار اور اقتدار صرف پرویز الہیٰ کے پاس ہے۔ عمران خان کے واضح اعلان کے بعد بھی کہ ہم اسمبلیاں تحلیل کر رہے ہیں، اب تک ایک صوبائی اسمبلی تو دور کسی ایک بھی رہنما کا استعفیٰ اسپیکر کو نہیں پہنچا۔ یہاں تک کہ جو استعفے قومی اسمبلی میں جمع کروائے گئے تھے، ان کی منظوری کو بھی رکوانے کی کوششیں جاری ہیں۔

کہنے کو تو نواز شریف صاحب تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے سینیئر سیاست دان ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اب تک سیکھنے کے بجائے اسی روش پر ہیں جس پر ماضی میں وہ رہے اور ماضی قریب میں عمران خان چلتے رہے۔

اگر 2023 میں انتخابات کے نتائج اس طرز پر آتے ہیں جس کی طرف عمران خان اشارہ کر رہے ہیں کہ ان کو نا اہل کر دیا جائے گا اور موجودہ اتحاد کو این آر او دے کر پاک کیا جائے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟

اگر 40 سال تک اس ملک کی سیاست اور نشیب و فراز دیکھنے والے سینیئر ترین رہنماؤں کا بھی یہ عالم ہے کہ ایک ڈیل کے تحت آ کر ملک پر براجمان ہوں تو میرے منہ میں خاک مگر اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

میں ذاتی طور پر ایسے کئی افراد کو جانتا ہوں اور ایسے کئی لوگ جو میرے انتہائی قریبی ہیں اور بچپن سے جوانی تک کئی سال انہوں نے میرے ساتھ گزارے، پاکستان میں رہتے ہوئے اس لیول کے محب وطن اور آرمی سے محبت کرنے والے تھے کہ ہم ان کی جنونی حالت کا اندازہ اس بات سے لگاتے تھے کہ وہ زید حامد اور حسن نثار کے مداح تھے۔ 2018 کے انتخابات میں اپنے والدین سمیت محلے کے افراد کو ذاتی پیسے لگا کر عمران خان کو ووٹ ڈلوانے لے کر گئے مگر جب ان کو حقیقت کا علم ہوا کہ آر ٹی ایس کیسے بیٹھا، فواد چودھری سے فردوس عاشق اعوان تک اور پنجاب کے ڈاکو سے قاتل ایم کیو ایم تک سب نے عمران کابینہ میں حلف اٹھایا تو انہوں نے آسٹریلیا کا ٹکٹ کٹوایا اور گزشتہ 4 سال سے وہاں رہائش پذیر ہیں۔ اوبر ڈرائیونگ اور ریسٹورنٹ میں ویٹر کی نوکری کرکے ڈگریاں جیب میں ڈالے بیرون ملک گاڑیاں اور گھر بنا چکے اور جب ان سے پوچھا کہ پاکستان آنے کا کیا ارادہ ہے تو کہنے لگے کہ ہماری ون وے ٹکٹ تھی۔ ہم سے جب کوئی پوچھتا ہے کہ کہاں سے تعلق رکھتے ہو تو کہتے ہیں ہم آسٹریلین ہیں، پاکستانی نہیں۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نوجوان ملک سے محبت کرتے ہیں تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ حالیہ مہینوں میں ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ نوجوانوں کی 50 فیصد سے زائد آبادی موقع ملنے پر پاکستانی شہریت چھوڑ کر بیرون ملک جانا چاہتی ہے، چاہے وہ ہمسایہ ممالک ہی کیوں نہ ہوں۔

اگر اگلے 5 سالوں میں ملک درست سمت میں نہ بڑھا تو یقیناً اس ملک میں بوڑھوں کی تعداد ہی بچے گی جو اپنی مٹی میں دفن ہونے کے خواب لیے موت کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ وگرنہ قوم کی بنیاد اور مستقبل یعنی نوجوان یہاں صرف مردم شماری یا نادرا کے ریکارڈ ہی میں پائے جائیں گے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@