Get Alerts

ہیلو ہیلو، میں ہوں، مسٹر جیدی

ہیلو ہیلو، میں ہوں، مسٹر جیدی
جی، جی میں ہوں اطہر شاہ خاں۔ اکثر لوگ مجھے ’جیدی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ نہیں، نہیں، مجھے برا نہیں بلکہ بہت اچھا لگتا ہے۔ کہ میری تخلیق اس قدر مقبول ہوئی اور میری پہچان بھی بن گئی۔ پاکستان بننے کے بعد والدین، رام پور اُتر پردیش سے لاہور آ بسے۔ میری عمر اس وقت 4 سال تھی۔ لاہور کے مختلف سکول و کالج سے تعلیم حاصل کی۔ ہوش سنبھالتے ہی گھر میں قلم و کتاب کے رشتہ کو محترم دیکھا۔ مجھے یاد ہے تیسری جماعت میں تھا، جب ماں نے مجھے ’بانگ درا‘ تحفے میں دی۔ لکھنے کا حوصلہ گھر کے ماحول سے ہی مِلا۔

پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کیا۔ بڑے بھائی مشہور ادیب، ہارون پاشا نے مجھے متاثر کیا۔ چھوٹی عمر میں ہی ریڈیو پر بچوں کے پروگرام میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ ہومیوپیتھک میں لاہور کے ایک ادارے سے ڈگری بھی لی، لیکن دوست احباب کو نسخے تجویز کرنے سے آگے بات نہ بڑھی۔ تعلیم مکمل کی تو ریڈیو پاکستان سے ہی منسلک ہو گیا۔ اور پھر یہ تعلق مدتوں چلا۔ میرا ریڈیو پروگرام ’رنگ ہے رنگ، جیدی کے سنگ‘ 19 سال تک چلا۔ پاکستان اور بھارت بھر میں مقبول رہا۔

بہت حوصلہ ملا جس دن میرے ایک چاہنے والے نے لکھا کہ ’میں اپنے باپ کی گود میں بیٹھ کر آپ کا پروگرام سُنا کرتا تھا۔ آج میرا بیٹا میری گود میں بیٹھ کر آپ کا یہ پروگرام سنتا ہے‘۔ ریڈیو کے ساتھ اس وابستگی میں خوب عزت و شہرت ملی۔ ٹی۔وی اور سٹیج کے لئے بھی لکھنا شروع کر دیا۔ بہت سارے ڈرامے اور خاکے لکھے۔ پی۔ٹی۔وی پہ انتظار فرمائیے، لاکھوں میں تین، باادب با ملاحظہ، ہوشیار، برگر فیملی، ہائے جیدی، ہیلو ہیلو، ہائی سکالر، کو بہت زیادہ شہرت ملی۔

1975 میں ایک ڈرامہ سیریل لکھنے کے لئے کراچی جانا پڑا، تھوڑے عرصہ قیام کا پروگرام تھا۔ اس لئے دو بچوں اور دو سوٹ کیسوں کے ساتھ کراچی آیا۔ ڈرامہ سیریل مکمل کیا تو ایک اور سیریل لکھنے کی فرمائش پہ کام شروع کر دیا۔ دوست احباب کے اصرار اور مصروفیات کی بِنا پر عارضی قیام، مستقل قیام میں بدل گیا۔ بچے دو سے چار اور سوٹ کیس کئی ہو گئے۔ پی۔ٹی۔وی کم معاوضہ دینے کی شہرت رکھتا تھا۔ لیکن میرا انحصار صرف اور صرف پی۔ٹی۔وی کے معاوضے پر نہیں تھا۔ کیونکہ میں ریڈیو اور سٹیج کے لئے ڈرامے اور خاکے بھی لکھتا اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے لئے بھی کام کرتا تھا۔ یعنی مچھلی پکڑنے کو کئی جگہ کانٹے لگائے ہوتے تھے۔ اور کسی نہ کسی ڈور پہ مچھلی لگ ہی جاتی تھی۔ اسی باعث سامان زیست کے لئے پریشانی نہ رہتی تھی۔ کئی بار ہوا کہ صبح ریڈیو، دوپہر ٹی۔وی اور شام میں سٹیج کے لئے کوئی نہ کوئی ڈرامہ، خاکہ، یا مکالمہ لکھا۔



فلموں کے لئے کہانیاں اور مکالمے لکھے۔ بازی، گونج اٹھی شہنائی، اور پنجابی فلم منجی کِتھے ڈاواں، بہت مشہور ہوئیں۔

کہہ لیجئے مجھے لوگوں کو ہنسانے کا شوق تھا۔ اس لئے پوری لگن سے یہ شوق پورا کیا۔ مزاحیہ شاعری بھی کی۔ دنیا بھر میں مشاعروں میں شرکت کی۔ پی۔ٹی۔وی پہ خصوصی مواقع پہ مزاحیہ مشاعرے کی بات ہوتی تو میرا نام سر فہرست ہوتا۔ اخبارات و رسائل میں مزاحیہ قطعات چھپتے رہے۔ اخبارات کے لئے کالم بھی لکھے۔ افسانے بھی لکھے۔ غرض جتنا لکھ سکتا تھا، میں نے لکھا۔ میں ایک صحت مند اور بھاری جسم کا مالک ہوں۔ میرے لکھے گئے کام کا اگر آپ وزن کریں، تو وہ مجھ سے زیادہ ہے۔

اب جیدی بننے کی کہانی بھی سُن لیں۔ مجھے اداکاری کا شوق نہیں تھا۔ بلکہ مصنف اور تخلیق کار ہونا ہی میرے لئے قابل فخر تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں نے پی۔ٹی۔وی کے لئے ڈرامہ سیریل ’انتظار فرمائیے‘ تحریر کیا۔ پی۔ٹی۔وی سٹیشن مینیجر کو ڈرامہ سیریل پسند آیا۔ اس سیریل میں انگلش اور اردو بولتا، ایک مزاحیہ کردار، لانگ کوٹ پہنے، گلے میں چھوٹی سی ٹائی لٹکائے، گول سی عینک ناک پہ ٹکائے ‘مسٹرجیدی‘ کا بھی تھا۔ پتہ نہیں اُن صاحب کو کیا سوجھی کہ تجویز داغی، کہ ’ مسٹر جیدی‘ کا کردار اطہر شاہ خاں صاحب، آپ خود ہی ادا کریں۔ بظاہر اُس وقت بے محل محسوس ہونے والی تجویز میرے خیال میں بہت خوب چچی اور چاہنے والوں نے خوب پیار دیا۔ یہ ڈرامہ سیریل لکھا تو تھا ہی، پھر خود ہی ڈائریکٹ بھی کیا۔ معین اختر، شکیل، قاضی واجد، زینت یاسمین جیسے کئی نامور لوگوں کے ساتھ یہ ڈرامہ سیریل ریکارڈ ہوا۔ مسٹر جیدی کا یہ کردار میری پہچان بن گیا۔ اور یہ پہچان میری زندگی کے ساتھ چلی۔

فلم، ڈرامہ نگاری، افسانہ نگاری، کالم نویسی، شاعری، صداکاری، اداکاری اور ہدایت کاری، میں کہاں تک انصاف کر پایا یہ فیصلہ تو مجھے پڑھنے، دیکھنے اور سننے والوں پر ہے۔ ان ساری مصروفیات کے ساتھ میں اپنے چاروں بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں رہا۔ گلیمر کی چکاچوند کو اپنی گھریلو زندگی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ میں نے گھر کو بنانے میں اپنی رفیق حیات کا ساتھ دیا۔ جو کمایا بیوی کے ہاتھ پہ رکھا۔ میں گھر آ کر کبھی بھی ‘ مسٹر جیدی‘ نہیں رہا۔ کیونکہ آپ شعیب اختر کو گھر میں تیز بولنگ کرنے کے لئے کہہ سکتے ہیں، نہ شاہد آفریدی کو گھر میں چھکے لگانے کے لئے؟

چھہتر برس کی عُمر میں جب تک جسم و جاں نے ساتھ دیا، میں نے محنت کی۔ اور جب دل کے دورے اور فالج کے باعث کچھ نیا نہیں کر پایا، تو لوگوں کے سامنے آنا بھی چھوڑ دیا۔ مجھے لگتا تھا کہ کچھ نیا کر پانے کے قابل ہوا تو لوگوں کے سامنے جاؤں گا۔ میرا کسی سے مقابلہ نہیں تھا۔ میں نے ’زندگی’ کی بس قدر کرنے کی کوشش کی۔ میں نے پوری توجہ اپنی دوڑ پہ رکھی۔ مجھے کسی دوسرے سے سبقت مطلوب نہیں تھی۔ میں نے بس ایک کوشش کی کہ میں اپنے گزرے کل سے بہتر کر پاؤں۔ میں نے زندگی کو انمول دین سمجھا۔ اس دَین کی حتیٰ المقدور قدر کی۔ مجھ خواب کے پیاسے کو، تعبیر کا دریا ملا۔ امید ہے میرا ربّ مجھ سے رحمت کا معاملہ رکھے گا۔ میری لغزشوں کو نظر انداز کرے گا۔