آئی جی اسلام آباد کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ جمع میں کہا گیا ہے کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم اور بلاگر اسد طور پر حملہ کرنیوالے ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو چند ہفتوں میں گرفتار کیا جائے گا۔
اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے یہ رپورٹ سپریم کورٹ کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق لیے گئے از خود نوٹس پر جمع کروائی۔ واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور میں ایف آئی اے کی جانب سے صحافی عامر میر اور عمران شفقت کو ہراساں کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملک میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا۔
تاہم اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بجائے جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا دو رکنی بنچ تشکیل دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں ابصار عالم اور اسد طور پر حملوں سے متعلق درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کی رپورٹ کا بھی ذکر ہے۔
نادرا کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابصار عالم اور اسد طور پر جہاں پر حملہ کیا گیا وہاں سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی گئی تھیں لیکن ان کی کوالٹی بہتر نہیں تھی جس کی وجہ سے ان حملوں میں ملوث افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا تھا تو اس وقت بھی جب سپریم کورٹ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے اس واقعے میں ملوث ملزمان کے بارے میں جو رپورٹ مانگی تھی اس پر بھی پولیس حکام کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ جس گاڑی میں مذکورہ صحافی کو اغوا کر کے لے جایا گیا تھا اس کا ریکارڈ سیف سٹی کیمروں میں نہیں آیا جس کی وجہ سے نہ ہی گاڑی اور نہ ہی ملزموں کا کوئی سراغ مل سکا ہے۔
شیخ رشید نے اس کیس میں بھی دعویٰ کیا تھا کہ پولیس ملزمان کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن آج تک ملزمان گرفتار نہیں ہوئے۔
حامد میر نے اس رپورٹ کے حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہے کہا کہ پولیس کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے مقدمات کے بارے میں سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ محض ایک خانہ پوری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔