Get Alerts

برطانوی محاصرہء ملتان: 'سِندھ اور چناب کے دوآبوں میں گھات بازی'

برطانوی محاصرہء ملتان: 'سِندھ اور چناب کے دوآبوں میں گھات بازی'
تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ سے ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ہوئے اور ہوئے ہونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلا 325 قبل مسیح میں سکندر مقدونی (جِسے ایران میں سکندر ملعون کے نام سے جانا جاتا ہے) کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ، 1818 میں رنجیت سنگھ کی جارحیت وغیرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ہے شاید کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ہے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ہوتے ہیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں؛ اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ہے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ہے ۔ اور زیر ِنظر تحریر اِسی نوعیت کی ایک کوکوشش ہے ـ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے 'پروٹاگونسٹ' اور 'اینٹاگونسٹ' کو اَدل بَدل کرڈالا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست ترین مقام دلوایا جا سکے ـ اور یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت سرائیکی اور ملتانی مورخین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہی رہی ـ راقم الحروف نے زیر نظر تحریر جو تحقیق ، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریبا" پونے دو سو سال پہلے کے ملتان اوراُسکے گِردو نوح کا معاشرہ اور انگریزوں کے ساتھ مقابلے کا منظر تحریری پردہ ءسیمیں پر دِکھایا جا سکے۔اِس پورے منظر میں مُولراج کی جو بھی سیاسی اور تاریخی حیثیت بنتی ہے، اُسکا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے ـ
۔۔۔
چارو نا چار لیفٹینینٹ ایڈورڈ اب میدانِ کارزار میں اُترپڑا ـ اپنی موجودگی اور مثال کے ذریعے وہ اپنی فوج کے حوصلے بلند کرنا چاہتا تھا ـ خلفشارِ حرب میں کُود کر وہ سب سے آگے جا کھڑا ھوا جہاں 3 ھزار سپاہی اور 80 گُھڑسوار پہلے ہی سے موجود تھے ـ اُس نے سپاہیوں کی بائیں جانب لمبی لمبی گھاس اور جھاڑ جَھنکار میں چُھپ کر فائر کرنے کیلئے پوزیشن سمبھال لی ـ 18 جُون 1848 کوصُبح کے سات آٹھ بجے کُنہری کے مقام پر ہردو جانب، یعنی مُلتانی سپاہ اور بہاولپوری دستوں کے درمیان، توپوں کی گھنگھرج شروع ہو گئی ـ

ملتا ن کے غیر رسمی لشکر میں میں لگ بھگ دس ھزار سپاہی تھے ۔ جن میں تقریبا" دو ھزار کے قریب گُھڑ سوار اور دَس بڑی بندوقیں شامل تھیں ۔ جبکہ نواب بہاولپور کے امدادی دستے میں نَو ہزار سپاہی اور گیارہ بندوقیں ۔ ہردو جانب کئی گھنٹوں تک گولا بارُود اورکراس فائرنگ جاری رھی، یہاں تک کہ نواب صاحب کے ارسال کردہ مُعاون دستہ نے، کچھ نقصان اٹھا کر فائرنگ کم کر دی اور پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی ۔ جبکہ مُولراج اور ملتانی افواج نے مسلسل بمباری جاری رکھی اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہیں ۔ صورتِ حال اپنے خلاف جاتے ہوے دیکھ کر بہاولپوری دستہ مزید پیچھے ہٹتا گیا اور پَس منظر میں کوئی محفوظ ٹھکانہ تلاش کر کے فائرنگ رینج سے اوجھل ہو گیا ۔

جو لوگ زخموں کی تاب نہ لا کر جان کی بازی ھار چکے تھے اُنکے لاشے میدان جنگ میں سورج کی لرزہ خیرہ کرنوں پر معلق جُھلستے رہ گئے ۔ پہلے دھاوے پر ہی سبق آموز شکست سے دوچار ھونے کے بعد یا پھر معا ملے کی دورُخی پیچیدگی کو سمجھتے ھوئے 'کہ اپنی دھرتی کا دفاع کرنے والوں کیخلاف محاز آرائی مُناسب نہیں' یا تو نواب صاحب کا بھیجا ھوا امدادی دستہ عارضی طور پر واپس بلا لیا گیا یا پھر وہ ملتانی سپاہ کی بے جگری دیکھ کر خود ہی پیٹھ دکھا گئے ۔

اب صرف لیفٹینینٹ ایڈورڈ کی مُٹھی بھر فوج ہی ملتان کی حوصلہ مند سپاہ کا سامنا کرنے کے لئے باقی رہ گئی تھی - اِن دونوں کے درمیان ابھی کوئی دوسری محاذ آرائی نہیں ھوئی تھی ۔ ایڈورڈ، کارٹلینڈ کے تازہ دم سپاہیوں (بشمول کچھ مقامی غداروں) ، گَنوں اور گھوڑوں کی آمد کا منتظر تھا اور اُسکی کوشش یہی تھی کہ فتح اور شکست کے اس دوراہے پر وہ مُولراج کی فوج کو اُس وقت تک ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دے جب تک کارٹلینڈ کی عسکری کمک اُس تک پہنچ نہ جائے ۔ البتہ صورتِ حال کو بھانپتے ھوئے کماندار ملتانی لشکریوں نے اپنی دھواں دھار پیش رفت جاری رکھی اور تمام تر توپوں کا رُخ اُس طرف موڑ دیا جہاں ایڈورڈ چُھپا ہوا تھا ۔ مولراج نے اپنی پیادہ فوج کو دُشمن کیطرف بڑھنے کا اشارہ کیا اور بندوقچیوں نے فائر کھول دیے، جبکہ اُسکے گُھڑ سواروں نے دُشمن کے بائیں اور عقبی حِصے کو گھیرے میں لے لیا ۔ ذلت اور رسوائی سے بھر پور شکست ایڈورڈ اور اسکے سپاہیوں کے سروں پر مَنڈلانے لگی ۔ بس اب دشمن کی تھوڑی سی پسپائی اور ذراء سے قدم اکھڑنے کی دیر تھی کہ ملتانی فوج اُنکو نیست و نابود کرکے رکھ دیتی ۔ کیونکہ بہاولپور کا اتحادی دستہ پہلے ہی میدان چھوڑ کر بھاگ چکا تھا اور کارٹلینڈ کے آدمی اور اسلحہ ابھی تک راستے میں تھے ۔

ایسی صورتِ حال میں وہ یا تو اکیلے اکیلے یا پھر چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں ایڈورڈ کی قریب از مَرگ فوج کو جوائن کر سکتے تھے ۔ مگر ایڈرورڈ نے رہا سہا حوصلہ جمع کرتے ھوئے تہیہ کیا کہ وہ ہتھیار ڈالنے یا بھاگ کھڑا ھونے کی بجائے بہادرانِ مُلتان کی مزاحمت کو کم از کم اِتنی دیر اور روکے گا جِتنی دیر میں کارٹلینڈ کے ہمراہ مزید اسلحہ اور افراد پہنچ سکیں ۔ تقریبا" 8 بجے اُس نےکارٹلینڈ کو ایک بار پھر خط لکھا اور کہا:
"کہ مَیں لگ بھگ 3 بَجے تک مزید مُولتانیوں کی چڑھائی روکنے کی کوشش کروں گا، اگر اُس وقت تک نئی بندوقیں اور سپاہی نہ پہنچے تو توحین آمیز موت اور عِبرت ناک شکست ھمارا مُقدر بن جائیں گے" ۔

اِسی امید کے سہارے ایڈورڈ نے اَپنی اُکھڑتی ھوئی سانسیں سنمبھال کر ہر ممکنہ مضبوط سے مضبوط اور بہتر سے بہتر پوزیشن اختیار کرنے کی اور وقت لینے کی کوشش جاری رَکھی ۔ ایک سوچی سمجھی ہوئی چال چلتے ہوئے اُسنے اپنے آدمیوں کو زمین پر اسطرح دراز ھو جانے اور کوئی بھی حرکت نہ کرنے کا حکم دیا کہ سپہ سالارِ ملتان اور اسکے جانباز سپاہیوں کو اُنکی پوزیشن، توانائی اور تعداد کا ہرگز اندازہ نہ ھو سکے ۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ ملتانی سپاہی اُنکی موت یا پسپائی قیاس کر کے آگے بڑھیں اور وہ قریب سے اُنکا بھرکس نکال دیں ۔ ایڈورڈ کو زمین کی ھمواری یا نا ھمواری اور نرمی یا سختی کا قطعا" کوئی اندازہ نہیں تھا اور اُسے خدشہ تھا کہ ایسی جگہ پر اپنی مُختصر آرٹلری اور گُھڑ سواروں کو حرکت دینا مشکل بھی ھوگا اور پُر خطر بھی ۔

لیکن اس تمام صورتِ حال کے با وجُود اُسکو فائدہ یہ حاصل ھوا کہ مُولتانی فوج کو اُنکی درست تعداد اور مُقام کا بالکل اندازہ نہیں ھو رہا تھا ۔ اَگر اُنہیں اندازہ ھوتا کہ دُشمن کی تعداد بہت کم اور حوصلہ اور اَسلحہ اِس سے بھی کم باقی رہ گئے ہیں تو شاید ایک اور زوردار ہَلے میں ہی وہ اُنکا کام تمام کر دیتے (اور ملتان کی نوآبادیاتی تاریخ مختلف ہوتی) ۔ تاھم انہوں نے کچھ فاصلے تک مُحتاط پیش رفت ضرور کی - آگے بڑھے مسکیٹوں (باروُد بھری بڑی بندوقوں) سے کچھ راونڈ فائر کئے اور دشمن کی پوزیشن مزید کمزور کر دی ۔ ایڈورڈ کے آدمیوں نے جوابی فائرنگ کی مگر سنگ اَوصاف ایڈورڈ ٹس سے مس نہ ہوا ۔ پھر بھی ملتانی جوانوں کی مُسلسل پیش رفت سے گھبرا کر کچھ دیر میں ہی اُن کے پاوں اکھڑنے لگے اور ناہنجار ایڈودڈ کو یقین ھونے لگا کہ اگر کارٹلینڈ کی اِمداد فوری طور پر نہ پہنچی تو وہ اور اُسکے مٹھی بھر پیروکاروں کا صفایا ہو جا ئے گا ۔ اُسکے اپنے الفاظ میں جو اس نے کارٹلینڈ کو لِکھے:
"میرے خیال میں میرے پاس زندہ رہنے کے لئیے شاید دس منٹ سے زیادہ باقی نہیں ہیں" ۔

جانثارانِ مُلتان نے اب کم و بیش صورتِ حال بھانپ لی تھی ۔ اور اُنہیں اندازہ ھو چلا تھا کہ ایک زور دار ہلہ بول کر وہ دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں ۔ ایڈورڈ موت و حیات کی جنونی کیفئت میں مبتلاء تھا، اُسے یہ خوف کھائے جارھا تھا کہ اگر فوری طور پر کُچھ نہ کیا گیا تو چند گھنٹوں میں اُنکا وہ حال ھوگا کہ لوگ اگینو اور اینڈرسن کو بھول جائیں گے ۔ اُس نے ملتانی سپاہ کی مزید پیش رفت روکنے اور وقت لینے کی ایک آخری سعی کی ۔ اور اپنی کمان میں موجود گھڑ سواروں کو آگے بڑھ کر فائر کرنے کا حُکم دیا جس کے نتیجے میں ایڈورڈ کے بہت سے سپاہی اور تھوڑے سے ملتان کے مُجاہد بھی مارے گئے ۔ اس غیر متوقع جھڑپ کو دیکھ کر ملتانی جوانوں نے آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا ، مبادہ اُنکے اندازے کے بَر خلاف ایڈورڈ کی کمان میں کوئی بڑی فوج نہ چُھپی ھو ۔ اور یہی اُنکی سب سے بڑی غلطی تھی - چالباز ایڈود کو جو وقت درکار تھا وہ اُسے مِل گیا اور کارٹلینڈ کی معیت میں منتظرہ کُمک بھی پہنچ گئی ۔

پہلے ایک گَن ، پھر دوسری اور پھر تیسری اور اِسی طرح ایک ایک کرکے تمام آرٹلری اور تازہ دم رجمنٹ (جس میں لوکل غدار اور انگریز سپاہی دونوں شامل تھے) لیفٹینینٹ ایڈورڈ کی کمان میں آن پہنچے ۔ اور پھر وہی ھوا جس کا ڈر تھا ـ

پہلے ایک توپچی نے فائر کھولا، پھر دوسرے اور پھر تیسرے نے اور اِسی طرح ایک ایک کر کے تمام توپچیوں نے ملتانی مورچوں پر چھوٹے بڑے گولے داغنا شروع کر دیے ۔ پَل بھر میں نَو وارد آرٹلری نے آگ اُگلنا شروع کر دی ۔ اب ملتان کے تھکے ماندے سپاہیوں کا مقابلہ ایڈورڈ کی تازہ دم فوج سے تھا جسکی تعداد پانچ ھزار سے کم نہ ھوگی ۔ اُنہوں نے آو دیکھا نہ تاو یکمُشت چھ توپچیوں اور بیسیوں بندوقوں سے سرزمینِ مُلتان کا سینہ گولا بارود سے چَھلنی کرنا شروُع کر دیا۔ اَب سے کُچھ دیر پہلے کے نیم مردہ و نومید ایڈروڈ کے تن بدن میں بجلیاں دوڑنے لگیں اور وہ میدان جنگ میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اپنے جوانوں کو ہدایات دیتا اور ہمت افزائی کرتا دکھائی دیا ـ عَین اُسی طرح اُسکے افسران اُسکے احکامات کو آگے بڑھا تے رہے ۔

ھر چند کہ لیفٹینینٹ ایڈورڈ کے سپاہی تھک چکے تھے اور انکی سانسیں اکھڑنے لگیں تھیں لیکن پھر بھی وہ افسرانِ بالا کی تائید میں اندھا دھند فائرنگ کئے جا رھے تھے کیونکہ اب کافی ایندھن اُن کے پاس موجود تھا ۔ ایڈورڈ نے رفتہ رفتہ انہیں آگے بڑھنے کا حکم دیا، ملتان کی سپاہ تھوڑی سی پیچھے کو سِرکی، ایڈورڈ کے سپاہی کچھ اور آگے بڑھے اور کچھ آگے جا کر اُنہوں نے تلواریں سونت لیں اور بندوقوں پر سنگینیں چڑھا لیں ۔ گُھڑ سوار نہ ھونے کی وجہ سے وہ مزید آگے نہیں بڑھ سکتے تھے مگر ملتان کی تھکی ماندی سپاہ پہلے ہی حوصلہ ہار کر پسپائی اختیار کرنےلگی تھی ۔ دونوں کے درمیان فائر ایکسچینج جاری تھا ۔ کچھ دیر توازن کے بعد گُھمسان کا رَن پڑا، دونو ں اطراف میں کافی جانی و مالی نقصان ہوا جِسکی تعداد اور دعوے تاریخ میں متنازعہ ہی رھے ۔ البتہ ملتانی دفاع کاروں کی تقریبا" سات آٹھ بندوقیں دَھرلی گئیں ۔

کچھ نقصان برداشت کرنے کے بعد سپاہِ ملتان پیچھے ہٹی اور واپسی کا سفر شروع کر دیا، اُنہیں ملتان کے قلعہ تک پہنچنا تھا تا کہ دفاعی مورچوں کی پناہ میں دُشمن پر دوبارہ زوردار حملے کئے جا سکیں ۔ لیکن پہلے دونوں افواج نے اپنے جوانوں کی، جو اِس معرکے میں کام آئے تھے، اپنی اپنی رسومات کے مطابق تدفین کی، زخمیوں کو ساتھ لیا اور اگلے معرکے کی تیاری شروع کر دی ۔

کُمک کی فراھمی سے ایڈورڈ کے انگریز افسران اور غداروں پر مشتمل فوج میں اب کئی گُنا اضافہ ھو چکا تھا ۔ مجموعی طور پر اُنکی بٹالئین کی تعداد 'اٹھارہ ہزار' بشمول 'چار ہزار' سواروں کے ھو چکی تھی ۔ جس میں جنرل کارٹلینڈ کے رسمی، لیفٹینینٹ ایڈورڈ کے غیر رسمی سپاہی جو اس نے دریائے سندھ کے دائیں کناروں سے جمع کئے تھے اور بہاولپوری سپاہی، جن کی قیادت کرنے کے لئے لیفٹینینٹ لیک کو جالندھر سے بھیجا گیا تھا، سب شامل تھے ۔ تقریبا" 'اکتیس' توپیں، توپچیاں اور بندوقیں (اپنی اور مقبوضہ سب ملا کر) اب اُنکی دستبرد میں تھیں ۔

مُلتانی افواج نے حِکمت کے تحت سُرعت سے واپسی کا سفر شروع کر دیا اور شجاع آباد سے سکندرآباد ہوتے ہوٖئے سورج کُنڈ (ملتان) پہنچ گئی ـ اس دوران انہوں نے انگریز اتحادی فوج کے آگے کوئی مزاحمت پیش نہ کی ۔ 'سورج کُنڈ' شہر کے جنوب مغرب میں ایک چھوٹا سا گاوں ھے ۔ ملتان شہر اور سورج کنڈ کے درمیان ایک بُھربُھرے اور غیر منظم کناروں والی آڑی ترچھی گہری، تیز اور نہایت کارآمد نہر بہتی تھی اور کِسی مہربان اژدھے کی طرح قلعہ کے قریب سے گزرتی ھوئی جنوب مغربی راستے سے کئی میل آگے کو چلی جاتی تھی ۔ گرمیوں کے پانچ چھ ماہ اس میں سرتا سر پانی رواں دواں رہتا تھا اور مختلف مقامات سے کئی اور چھوٹے بڑے نالے کھالے اِسمیں سے نکلتے تھے جو کاشتکاری کے بڑے بڑے رقبوں کو سیراب و آباد کرتے تھے ۔ ملتان شہر کی ہریالی و آبیاری میں اس نہر کا کردار انتہائی اھم تھا ـ جب یہ ندی چڑھی ھوئی ھوتی تو کسی بھی جارح فوج کے لئے اچھی خاصی رکاوٹ پیش کر سکتی تھی ـ

مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراق) سے وابستہ ہیں