سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی مؤخر کی جا سکتی ہے اور اسے مؤخر کر دینا چاہیے۔ جب نئی حکومت آئے گی تو وہ نیا آرمی چیف تعینات کر لے گی۔
دنیا ٹی وی کے لئے کامران خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ آئیے بیٹھیں، میں الیکشن سمیت ہر موضوع پر بات چیت کے لئے تیار ہوں۔ عمران خان نے کہا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں معافی مانگ لیتے اگر ان کو کہنے کی اجازت ملتی۔ امریکہ کے حوالے سے تعلقات کے بارے میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ امریکہ کے دشمن نہیں ہیں۔
پروگرام کے میزبان کامران خان کا کہنا تھا کہ انہیں گمان ہے کہ خان صاحب اگلی پیشی پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں معافی مانگ لیں گے۔ انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ عمران خان نے انٹرویو میں ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنے کے لئے ایک فارمولے کی بات کی ہے۔
عمران خان کی اس بات کو بہت سے لوگ ان کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دیے جانے کے حق میں بیان کے طور پر لے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سوموار کی صبح ایک سینیئر وفاقی وزیر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی چیف اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے اور اس عہدے کے لئے لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر ایک مضبوط امیدوار ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اب تک مدت ملازمت میں توسیع مانگنے کی کوئی درخواست نہیں آئی ہے اور نہ ان کی جانب سے ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور سابق صدر آصف زرداری تینوں اس پر متفق ہیں کہ آنے والے نومبر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہو۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے آرمی چیف کے عہدے کے لئے کوئی نام دیا گیا ہے، مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام قیاس آرائیاں ہیں اور کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرف سے کوئی نام نہیں آیا، البتہ کچھ ناموں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں۔
کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نومبر میں ریٹائرڈ ہو جائیں گے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے سینیئر وزیر نے کہا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مدت ملازمت مکمل ہونے پر گھر جانا چاہتے ہیں اور وہ مزید توسیع کے حق میں نہیں ہیں۔ البتہ جو لوگ اس قیاس آرائی کو ہوا دے رہے ہیں وہ جنرل باجوہ کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے حالیہ ریمارکس سے کوئی ممکنہ دباؤ آ سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت اور فوج پر اس حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ہے البتہ بین الاقوامی محاذ پر اور لوگوں میں خاص کر پی ٹی آئی کے سیاسی کارکنوں میں فوج کے حوالے سے منافرت پھیل رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آنے والے آرمی چیف کی دوڑ میں مضبوط امیدوار کون ہو سکتا ہے، وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ ویسے تو اس معاملے پر نومبر سے پہلے بحث کرنا بے کار ہے اور وزیر اعظم سمری ملنے کے بعد اس پر غور و فکر کرے گا، لیکن میری نظر میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آرمی چیف کے عہدے کے لئے ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ پھر بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
وفاقی وزیر نے نواز شریف اور ریاستی ادارے کے ایک سینیئر افسر کے درمیان لندن میں ملاقات کی افواہوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اور کہا کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
عمران خان نے کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے وکلا سے بات کی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک الیکشن نہیں ہو جاتا، نئے آرمی چیف کا تقرر روکا جا سکتا ہے اور اس میں کوئی قانونی قباحت موجود نہیں۔ اس انٹرویو کے دوران عمران خان سے بارہا سوال کیا گیا کہ ایک ایسے موقع پر کہ جب ملک میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا رکھی ہے، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، الیکشن کا انعقاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کا جواب تھا کہ ملک کی معیشت دن بدن نیچے کی طرف گامزن ہے اور ایسی صورتحال میں الیکشن کے سوا کوئی حل نہیں کیونکہ موجودہ حکومت ثابت کر چکی ہے کہ ان کے پاس کوئی پلان موجود نہیں ہے۔
کامران خان نے ان سے سوال کیا کہ موجودہ حکومت کے پاس پلان موجود نہیں تو کیا آپ سب کچھ طے کر چکے ہیں کہ آپ حکومت میں آ کر ایسے کون سے اقدامات لیں گے جن سے ملکی معیشت سنبھل سکے۔ عمران خان کا جواب تھا کہ موجودہ حکومت کے پاس پلان نہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میرے پاس پلان موجود ہے۔ میرا لیکن ماننا ہے کہ جو بھی معاشی حل ان مشکلات کا ہو سکتا ہے، اس کے لئے ملک میں سیاسی استحکام لازمی ہے اور وہ ایک صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے ہی آ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں جب چاہوں قوم کو سڑکوں پر نکال سکتا ہوں لیکن میں ایسا نہیں کر رہا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ میں اپنے ملک کا سوچ رہا ہوں۔ میں ایسا کوئی طریقہ کار اختیار نہیں کروں گا جو غیر جمہوری ہو۔