مبارک سلامت اور تم غدار میں محبّ وطن کے اعلانات کی گونج میں معافیاں مانگنے کا سلسلہ پھر سے شروع ہو چکا ہے۔ لندن سے لاہور تک ہر جانب تذکرہ ہے ڈیلی میل کی معافی کا جس نے شریف خاندان بالخصوص وزیر اعظم شہباز شریف پر 2005 میں آئے زلزلے کے بعد برطانیہ سے ملنے والی امدادی رقم کی خرد برد کے الزامات پر مبنی ڈیوڈ روز کی اسٹوری پر معذرت کر لی ہے مگر ساتھ ہی ہمارے انگریزی دانوں کی انگریزی کا کڑا امتحان شروع ہو گیا ہے۔ کوئی اب بھی اس سٹوری کے مندرجات پر ڈٹا کھڑا ہے تو کوئی کرپشن فری شہباز شریف کی سند لیے میدان میں ہے۔
عمران خان سے نواز شریف اور اسد عمر سے شہباز شریف تک لنگی لنگوٹ کسے ایک دوسرے کی کرپشن کی پرانی داستانیں نئے انداز میں لیے موجود ہیں لیکن اس کھینچا تانی میں اگر کسی بات پر دھیان نہیں دیا جا رہا تو وہ یہ حقیقت ہے کہ ان الزامات در الزامات سے اقوام عالم میں پاکستان کی ساکھ کس حد تک متاثر ہو رہی ہے اور اس کا نقصان کسے پہنچ رہا ہے۔ اب جس ملک میں ایک سابق وزیر اعظم رجیم چینج سے ڈیفالٹ تک کا بیانیہ لیے گلیوں میں صدائیں لگا رہا ہے اور حاضر سروس وزیر اعظم ڈیرھ گھنٹے کی طویل پریس کانفرنس عمران خان صاحب کو پورے ٹبر سمیت کرپٹ اور ملک اور اس کے مفادات کا مخالف ثابت کرنے پر زور لگا رہا ہے کوئی دوست ملک بھی کیونکر اس ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کو آگے آئے گا؟
ایسے میں جب 15 کلو ہیروئن ڈال کر سزائے موت تک پہنچانے کا بندوبست اگر ایسے بے نقاب ہو جیسے رانا ثناء اللہ کا مقدمہ خارج ہوا تو پھر کیا عدلیہ اور کیا اسٹیبلشمنٹ، کیا پولیس اور کیا محکمہ تعلیم، جس بھی درجہ بندی پر آجائیں کس کو فکر ہے۔ ایسے میں ہمارے محترم جج منصور علی شاہ پر کون اعتبار کرے گا جو کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنا ادارہ ٹھیک کر لیں گے آپ اپنا ادارہ دیکھو۔ یہ تبصرہ بظاہر تو بڑا صائب معلوم ہوتا ہے لیکن حضور اگر آپ نے اپنا ادارہ ٹھیک کر لیا ہوتا یا اس کے لیے ایک قدم بھی بڑھایا ہوتا تو آپ کو یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی بلکہ آپ کی محض اخلاقی اتھارٹی ہی کسی بھی طاقتور ترین ادارے کو کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کا جواز فراہم کر دیتی۔ لیکن کیا کیجئے، ہمارے منصفوں پر تو مصلح قوم بننے اور ملک بچانے کی دھن سوار ہے، انصاف کرنے کا جنون ہے حالانکہ عدالتوں اور ان میں بیٹھے جج صاحبان کا کام دستیاب شواہد کی روشنی میں قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے مگر یہاں تو مسند انصاف پر بیٹھتے ہی یہ خواہش سر چڑھ جاتی ہے کہ سارے ادارے مل بیٹھ کر ملک کے بارے میں سوچیں۔ یعنی فیصلہ سازی میں بس میرا سکہ چلے، مجھے سٹیک ہولڈر تسلیم کیا جائے کی دبی خواہش چنگاری بن کر ابھر رہی ہے حضور۔
لیکن اداروں میں بیٹھے لوگ بھی کیا کریں جب پورے معاشرے اور خود سیاست دانوں کو بھی اداروں کو مداخلت کے لیے آواز اور جواز دینے کا شوق ٹکنے نہ دے رہا ہو۔ اشارہ عمران خان صاحب کی تازہ ہوئی محبت کی جانب ہے۔ خان صاحب جب تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اقتدار سے بے دخل ہوئے اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اختیار کیا تو جہاں یہ خدشہ تھا اور پھر بعد میں یہی الزامات بھی لگے کہ ادارے میں تقسیم کی کوشش ہو رہی ہے، وہیں آئین اور قانون پرستوں کو عمران خان صاحب سے امید بندھ چلی تھی کہ وہ سیاست سے غیر منتخب قوتوں کو ہمیشہ کے لئے دور کر دیں گے اور پھر یہ میدان سیاست دانوں کے ہی ہاتھ میں رہے گا مگر اسے بدقسمتی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ آرمی چیف کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سیاست سے دور رکھیے، ادارہ عدم مداخلت کی پالیسی کا واضح اعلان کر چکا ہے لیکن خان صاحب بار بار انہیں غیر جانبداری ترک کر کے مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر اب بھی وہ اداروں کو مداخلت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں اور جنرل باجوہ کے جانے کے بعد آپ کے اندر دوبارہ تھوڑی سے محبت جاگ اٹھی ہے تو پھر آپ کے مخالفین کیوں نہ آپ کے خلاف اس تھوڑی سی محبت کو عشق لازوال میں تبدیل کر کے آپ کو سیاست سے مستقل بنیادوں پر نکال باہر کرنے کا انتظام کر لیں خان صاحب؟