’میں دنیا میں نہیں آنا چاہتا تھا، مجھے کیوں لایا گیا‘: ہمارے نزدیک تو مقدمہ قابل سماعت ہے

’میں دنیا میں نہیں آنا چاہتا تھا، مجھے کیوں لایا گیا‘: ہمارے نزدیک تو مقدمہ قابل سماعت ہے
وہ جو ایک برخوردار اپنے دنیا میں لائے جانے کے جرم پر والدین کو عدالت میں گھسیٹنے کے لئے پر تول رہے ہیں، ہمیں ان سے ہمدردی ہے۔

دیکھیے ویسے تو ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ وجود کو ہی تمام خرابیوں کی جڑ سمجھتے ہیں اور یہ کوئی ان کا اپنا خیال نہیں بدھا بھی یہی کہہ گئے۔ حیات دکھ ہے اور وجود مجبوری ہے۔

صاحبزادے چونکہ موجودہ دور سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انہیں درد جھیلنے کے بجائے جلدی درد کو ختم کرنے سے دلچسپی ہے۔

وہ دور گزر گیا جب گیان کے متلاشی اور شاعر ایک عالم غرور میں زہر حیات کو قطرہ قطرہ پیتے تھے، اور اس درد سے تخلیق ظہور پاتی تھی۔ وہ دور جب انسان خدا سے شکوہ کرتے تھے۔

اب زمانہ ذرا جلد بازی کا ہے۔ اتنی دیر تک بیٹھ کر نہ آپ کی داستان غم کو سنا جاسکتا ہے اور نہ اتنے لمبے عرصہ تک اپنا درد سہا جا سکتا ہے۔ آدھی بات سنتے ہی اور ذرا سا درد سہتے ہی علاج اور حل اور دوا کی فکر ہوتی ہے۔

خدا تو ایک غیر ضروری خیال ہے لہٰذا اس سے گفت و شنید میں وقت کیوں برباد کیا جائے؟

لہٰذا جب میک ڈانلڈ سے فاسٹ فوڈ کھا پی، جم میں نت نئی مشینوں سے اسی غیر ضروری غذائی بوجھ کو جھاڑنے کی کوشش میں کچھ ایکسرسائز کر کے، بائک پر دوستوں کے ساتھ تفریح کےبعد گھر دیر گئے لوٹنے پر اماں ابا سے ڈانٹ پڑی تو ہست اور نیست کے مسئلے کا حل ایک دم ہی سمجھ آیا گویا یہی وہ روشنی تھی جو بدھا کو سلطنت چھوڑ کر جنگل میں نکل جانے کے بعد ایک دن اچانک کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر نظر آ گئی تھی۔

برخوردار بھی ہماری طرح اب تک پرائمری جماعتوں میں پڑھے اس قصے کی طرف سے ادھیڑ بن میں ہوں گے۔ جس میں یونہی لکھا تھا۔ وللہ ہم بھی یہی سوچتے تھے کہ یہ اچانک درخت میں کیا روشنی نظر آئی کہ وہ مہاتما بن بیٹھے۔ ہم اس تصور کی تجسیم میاں نیوٹن کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی مدد سے کیا کرتے ہیں۔

تو ادھر گیان حاصل ہوا اور ادھر مستقبل کے امین نوجوان نے جھٹ وڈیو بنا کر ڈال دی۔ اس قسم کی داڑھی کے ساتھ اس زاویہ فکر کا تاثر اوربھی اچھا پڑتا ہے۔

نوجوان سے متفق ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے جو دل کولگتی ہے۔ آزادی فکر و عمل اور فرد کی پرسنل سپیس کی آزادی کے غلغلے میں والدین کو یہ حق حاصل ہو چکا ہے کہ وہ کس اولاد کو پیدا کرنا چاہیں گے اور کس کو ٹوائلٹ کی نذر کر دیں گے۔

نظریہ یہ ہے کہ جنین اگرچہLiving being  ہے، مگر جب تک دنیا میں نہیں آتا، دنیا میں موجود اس کی ماں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کو دنیا میں آنے دے یا یہ بوجھ اٹھانے سے انکار کر دے۔

لہٰذا یہ سچ ہے کہ والدین کو دیے گئے اس اختیار کے بعد دنیا میں آنے والی نسل دراصل ماں باپ کے اختیار اور مرضی سے وجود میں آئی ہے اور باقی ساروں کو ان چاہا حمل یا انچاہی اولاد کا سٹیٹس ملا۔

They call it unwanted pregnancy and unwanted child.

تو ایسے میں دنیا میں آجانے کے بعد اب تو اس نسل کویہ حق دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے والدین کا گریبان پکڑے کہ آپ نے مجھے ہی ہستی کے اس درد کو جھیلنے کے لئے کیوں منتخب کیا؟ یہ صرف آپ کا نہیں، میرا بھی معاملہ تھا اور اس معاملے میں میری رائے کی اہمیت بھی تسلیم کی جائے۔ دوران حمل نہ سہی تو ابھی سہی!

شاباش لڑکے !

ہم تو اس سارے کھیل کے تماشائی ہیں اس کھیل کے سب کرداروں کے اچھے مکالموں پر واہ وا کرتے جاتے ہیں۔

مصنفہ طب اور نفسیات کی طالبہ، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور کمیونیٹی ورک میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے خاص لگاؤ ہے، چھوٹی عمر سے میگزینز میں لکھ رہی ہیں۔