کیا 2023 کی مردم شماری میں کراچی کی اصل آبادی کو ظاہر کیا جا سکے گا؟

کیا 2023 کی مردم شماری میں کراچی کی اصل آبادی کو ظاہر کیا جا سکے گا؟
مردم شماری سے مراد ایک مخصوص مدت میں آبادی کو اس طرح گنا جانا ہے کہ جو جہاں ہے اسے وہیں گنا جائے۔ مردم شماری کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے مردم شماری کے مقاصد کو دیکھنا ضروری ہے۔ اس کا بنیادی مقصد رہائش پذیر لوگوں کی گنتی ہے جبکہ مالی وسائل کی تقسیم، انتخابی حلقہ بندیاں اور معیار زندگی کی جانچ کاری جیسے دیگر اہم معاملات بھی مردم شماری سے جڑے نظر آتے ہیں۔

رہائش پذیر لوگوں کی گنتی سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مخصوص تاریخ کو پورے پاکستان میں کتنے خاندان اور لوگ آباد ہیں۔ اسی طرح مختلف صوبوں اور شہروں میں کتنی آبادی ہے۔ اس کے علاوہ مالی وسائل کی تقسیم بھی اسی سے کی جاتی ہے۔ پاکستان کا قومی فنڈ صوبوں اور علاقوں میں کیسے تقسیم ہو گا، اس کا فیصلہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) آبادی کی بنیاد پر ہی کرتا ہے۔ جہاں آبادی زیادہ ہوگی تو وسائل میں اس کا حصہ بھی زیادہ ہوگا۔ پھر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں کس علاقے کو کتنی نمائندگی ملے گی اس کا فیصلہ آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اگر زیادہ آبادی ہوگی تو زیادہ حلقے بنیں گے اور اسی کے مطابق اسمبلی میں نمائندگی ہو گی۔

مردم شماری اس لیے بھی بہت اہم تصور کی جاتی ہے کیونکہ سماجی اور معاشی منصوبہ بندی اسی کی بنیاد پر کی جاتی ہے اورسہولیات جیسے سکولوں یا اسپتالوں کی ضرورت کا تخمینہ بھی آبادی کی بنیاد پر ہی لگایا جاتا ہے اور کسی صوبے یا شہر کی آبادی کم دکھائے جانے کا مطلب ہے کہ اسے کم وسائل پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ مردم شماری کی بدولت منصوبہ ساز اداروں کو آبادی اور اس کے حقیقی مسائل کے بارے میں اعداد و شمار میسر آتے ہیں۔

مردم شماری کے نتائج کی درستگی کا انحصار مختلف عوامل پر ہوتا ہے جیسے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی تکمیل، سروے کے طریقوں کا معیار اور حصہ لینے کی خواہش۔ کراچی، ایک بڑا اور متنوع شہر، اپنے حجم، تیزی سے آبادی میں اضافے اور غیر رسمی بستیوں کی وجہ سے درست مردم شماری کے لیے چیلنجز پیش کرتا ہے۔ مردم شماری کا ڈیٹا آبادی کا سنیپ شاٹ فراہم کرتا ہے، لیکن نقل مکانی، قدرتی نمو اور شہری ترقی کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ اصل آبادی میں تبدیلی آتی ہے۔

پاکستان میں روایتی طور پر مردم شماری 10 سال بعد کروائی جاتی ہے۔ سب سے پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی تھی۔ پھر 1961، 1972، 1981، 1998 اور 2017 میں ہوئی۔ پہلے ہی پاکستان میں مردم شماریاں 10 سال کے وقفے سے نہ ہو سکیں پھر 2011 میں شماریات ایکٹ میں ترمیم کر کے 10 سال میں مردم شماری کرانے کی پابندی کو ہی ختم کر دیا گیا۔ یوں اب جب حکومت چاہے مردم شماری کرا سکتی ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی کی مردم شماری کا معاملہ ہمیشہ حساس نوعیت کا رہا ہے۔ یہ گمان ہوتا ہے کہ کچھ حلقے ہمیشہ کراچی کی مردم شماری کے عمل پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں جس کے باعث مردم شماری میں بے قاعدگیاں پیدا ہوئیں اور ایک مخصوص انداز میں اعداد و شمار مرتب کئے جاتے رہے۔ ایسا ہی معاملہ 2017 میں بھی سامنے آیا اور کراچی کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو ماہرین اور سیاسی جماعتوں نے قبول نہیں کیا کیونکہ ان کے مطابق مردم شماری میں شہر کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا تھا۔ پاکستان کی 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار 521 دکھائی گئی، جبکہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 98 لاکھ 65 ہزار تھی جبکہ ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ 2017 میں کراچی کی آبادی 2 کروڑ تک جا پہنچی تھی۔

موجودہ وقت میں جبکہ محکمہ شماریات نے پاکستان کی ساتویں مردم شماری کا عمل شروع کر دیا ہے یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا مردم شماری 2023 میں کراچی کی حقیقی آبادی کو دکھایا جاسکے گا؟ کیونکہ ماہرین اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی کی آبادی اس وقت 3 کروڑ سے زیادہ ہے کیونکہ آبادی میں اضافے کے تین عنصر ہیں؛ شرح پیدائش، شرح اموات اور اندرونی نقل مکانی اور کراچی کی جانب نقل مکانی میں حد درجہ اضافہ نظر آیا ہے۔

2017 کی مردم شماری میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو کراچی میں گنا گیا اور ان کے مستقل پتے کی بنیاد پر ان کے آبائی علاقوں میں دکھایا گیا جبکہ وہ عرصہ دراز سے کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور ممکنہ حد تک سہولیات سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ یوں کراچی کی آبادی کم ظاہر کی گئی اور کراچی کی آبادی کو جن علاقوں میں دکھایا گیا وہاں نا صرف اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوا بلکہ وسائل میں ان علاقوں کا حصہ زیادہ ہو گیا۔

اس لحاظ سے یہ ایک اہم سوال ہے کہ مردم شماری 2023 میں آبادی کو شہریوں کے مستقل پتے کی بنیاد پر گنا جائے گا یا عارضی پتے کی بنیاد پر؟ محکمہ شماریات کےمطابق جو شخص 6 مہینے سے کراچی میں رہ رہا ہے یا اگلے 6 مہینے تک کراچی میں رہے گا اسے کراچی کی آبادی میں گنا جائے گا۔ لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ اندرونی نقل مکانی سے متعلق کتنے سوالات گنتی کے لیے استعمال کیے گئے سوالناموں کا حصہ ہیں کیونکہ اس کے بغیر محکمہ شماریات کسی مخصوص جگہ پر کسی فرد کے قیام کی مدت نہیں جان سکتا۔ سب سے بڑھ کر شمار کنندہ کیسے یہ تعین کر سکے گا کہ جواب دہندہ کا شہر میں رہائش کا حقیقی دورانیہ کتنا ہے یا مستقبل میں وہ کتنے عرصے تک شہر میں رہے گا؟ تو اس کا حل یہ ہے کہ جو جہاں موجود ہے اس کا شمار وہیں کیا جائے خصوصاً پورے خاندان کی رہائش کی صورت میں اس کا شمار وہیں کیا جائے جہاں وہ موجود ہے۔

اگر واقعی کراچی میں موجود لوگوں کو کراچی میں شمار کیا جائے تو کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زائد ہو گی کیونکہ کراچی میں آبادی کا دباؤ بتدریج بڑھتا رہا ہے۔ پورے ملک سے لوگ روزگار کے لیے کراچی منتقل ہوئے ہیں۔ اکثر 6 سے 8 مہینے کراچی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد افغان مہاجرین کی سالوں سے کراچی میں رہائش پذیر ہے۔ پھر اسی طرح بنگالی، برمی روہنگیا کی آبادیاں ہیں۔ سرائیکی پٹی سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی بھی تعداد بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ پھر موجودہ سیلاب کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی میں آ کر رہائش پذیر ہو گئی ہے جبکہ 2010 کے سیلاب سے متاثرہ خاندان آج بھی کراچی میں رہائش پذیر ہیں جبکہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ اب بھی کراچی میں پائے جاتے ہیں لیکن نادرا کے ریکارڈ میں ان کی موجودہ اور مستقل رہائش میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی یعنی تکنیکی طور پر وہ اب بھی اپنے آبائی علاقوں کے رہائشی شمار کیے جا رہے ہیں۔

آبادی کی درست اور جامع کوریج کو یقینی بنانے کے لیے حد بندی بہت ضروری ہے، لیکن یہ ایک پیچیدہ اور سیاسی طور پر حساس مسئلہ ہو سکتا ہے۔ بلاک کی سطح پر 2023 کی مردم شماری میں ممکنہ حد بندی کے مسائل میں نامکمل کوریج، سرحدی تنازعات، سیاسی مداخلت اور ڈیٹا کا معیار شامل ہے۔ پاکستان میں منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لیے قابل اعتماد ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے مردم شماری کے حکام کے لیے ان مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔

شہر میں کم گنتی استحصال اور عدم اطمینان کے جذبات کو بڑھاوا دیتی ہے جیسا کہ 2017 کی مردم شماری میں ہوا۔ نامکمل اعداد و شمار اکٹھے کئے گئے اور 19 سالوں میں کل آبادی میں 63 فیصد اضافہ بتایا گیا جبکہ آبادی کی ایک بڑی تعداد کو یا تو گنا ہی نہیں گیا جیسے کہ بنگالی برادری کی کئی آبادیوں کو نظرانداز کیا گیا یا پختون برادریوں کو کراچی میں موجود ہونے کے باوجود ان کے آبائی شہروں میں دکھایا گیا اور یہ رجحانات شہر کے لیے تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگر ہمیں شہر کے مستقبل کے حوالے سے بہتر منصوبہ بندی کرنی ہے تو مردم شماری کے عمل کو شفاف بنانا ہوگا تاکہ ہم تخمینہ لگا سکیں کہ شہر میں لوگوں کی بنیادی ڈھانچے بشمول سکولوں، اسپتالوں، رہائشوں، سڑکوں اور خوراک، پانی، بجلی اور ملازمتوں کی طلب کیا ہے اور یوں شہر میں ایک عوام دوست منصوبہ بندی کی بنیاد رکھی جا سکے۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے