حکومتی اتحاد میں دراڑ پڑ گئی

حکومتی اتحاد میں دراڑ پڑ گئی
ریکوڈک کے معاملے پر حکومتی اتحادیوں میں دراڑ پڑ گئی۔ وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وزرا نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کا اشارہ بھی دے دیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ریکوڈک کی حتمی ڈیل پر دستخط کرنے کی منظوری دے دی گئی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں منظور ریکوڈک پراجیکٹ فنڈنگ پلان کی توثیق کی گئی جبکہ 15 دسمبر کو معاہدے پر حتمی دستخط بھی کر دیئے جائیں گے۔

تاہم اتحادی جماعتوں بی این پی پارٹی (مینگل گروپ) اور جے یو آئی کی جانب سے ریکوڈک بل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

ذرائع کے مطابق سردار اختر مینگل نے وزرا کو اہم حکومتی امور پر بائیکاٹ کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریکوڈک معاہدے میں ترامیم تک حکومتی امور سے دور رہیں۔

فارن انویسٹمنٹ بل پر اعتراضات کا اظہار کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ اگر فارن انویسٹمنٹ بل پر پیشرفت کا سدباب نہ ہوا تو ان کے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے امکانات ہیں۔

اختر مینگل نے کہا کہ مخلوط حکومت میں تمام اتحادیوں کو لے کر فیصلے کرنے چاہئیں لیکن پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کے بجائے انویسٹر کو اعتماد میں لیتے ہیں آپ پارلیمنٹ سے زیادہ کمپنیوں کو اہمیت دیتے ہیں تو پھر ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ ہمارا اتحاد کس بنیاد پر ہے۔

بی این پی سربراہ کا کہنا تھاکہ ہم سے بڑھ کر کسی کمپنی کے سی ای او کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہمارے صوبے کو جس انداز میں ہر کسی نے آکر لوٹا۔ جہاں وسائل ہوتے ہیں وہاں کے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن یہ بلوچستان کی بدبختی ہے کہ جس انداز میں وہاں وسائل دریافت ہوئے وہ ہمارے لیے وبال جان بنے ہوئے ہیں، اب اپنی قسمت پر روئیں یا حکمرانوں کی حرکت پر سر پیٹیں۔

علاوہ ازیں پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود کی زیر صدارت جے یو آئی (ف) کے وزرا کا اجلاس ہوا اور جے یو آئی کے وزرا نےریکوڈک بل میں ترامیم تک کابینہ کے اجلاسوں سے بائیکاٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچستان کو محروم نہیں ہونے دیا جائے گا۔

جے یو آئی کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ فارن انویسٹمنٹ بل زور، زبردستی اور دھوکے سے پاس کروایا گیا ہے اور یہ پاکستان کے وفاق کے لیے خطرہ ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف نے ریکوڈک قانون سازی پر اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے رابطے شروع کردیئے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ریکوڈک قانون سازی  کے معاملے پر جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا اور سربراہ بی این پی سردار اختر مینگل کو بھی فون کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی رہنماؤں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور آپ کے تحفظات دور کریں گے۔

وزیر اعظم کی ہدایات پر کابینہ کی خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی قائم کردہ کابینہ کمیٹی کی بھی اتحادیوں سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔

واضح رہے کہ 9 دسمبر کو سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ نے ریکوڈک کیس کا 13 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا تھا جس میں لکھا  تھا کہ ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں 2 سوال پوچھے گئے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ریکوڈک معاہدے  سپریم کورٹ کے 2013ء کے فیصلے کے خلاف نہیں۔ ماہرین کی رائے لے کر ہی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے معاہدہ کیا۔

سپریم کورٹ کے بینچ نے اپنی رائے میں تحریر کیا کہ ملکی آئین قومی اثاثوں کے قانون کے خلاف معاہدے کی اجازت نہیں دیتا۔ صوبائی حکومتیں معدنیات کے حوالے سے قوانین میں ترمیم اور تبدیلی کر سکتی ہیں۔عدالت نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کو معاہدے پر اعتماد میں لیا گیا تھا جب کہ منتخب عوامی نمائندوں نے بھی معاہدے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ معاہدے میں کوئی غیر قانونی شق نہیں۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ بیرک گولڈ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ بیرک گولڈ نے کارپوریٹ سوشل ذمے داری نبھانے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔فیصلے کے مطابق فارن انویسٹمنٹ بل صرف بیرک گولڈ کے لیے نہیں ہے۔ یہ ہر اس کمپنی کے لیے ہے جو 500 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گی۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی متفقہ رائے پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے قرار دیا کہ ریفرنس کا پہلا سوال پالیسی معاملہ ہے۔ جسٹس یحیی آفریدی اپنے نوٹ میں وجوہات بھی تحریر کریں گے۔