حیض سے متعلق گفتگو کو ممنوع قرار دے کر ہم اپنی بچیوں کا نقصان کر رہے ہیں

حیض سے متعلق گفتگو کو ممنوع قرار دے کر ہم اپنی بچیوں کا نقصان کر رہے ہیں
حیض ایک قدرتی عمل ہے اور اس کے بغیر انسانیت کی بقا ناممکن ہے۔ اس کے
باوجود اسے پاکستان میں ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی اور سماجی
قدغنوں کے باعث حیض کے دنوں میں عورت ایک اچھوت سی بن جاتی ہے۔ اگر مرد
حضرات کو بھی حیض ہوتا، تو یہ آج تک ایک شجرِ ممنوعہ سمجھا جا رہا ہوتا؟

* پاکستان میں حیض سے متعلق بہت سے

* عجیب و غریب تصورات پائے جاتے ہیں

* کمسن لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اس دوران نہائیں نہیں، ٹھنڈا پانی نہ پئیں

* اور نہ ہی زیادہ مرچوں والا کھانا کھائیں

* یہ حیض سے متعلق کئی من گھڑت خیالات میں سے چند ہیں

* معاشرتی اور مذہبی پابندیوں کے باعث بھی

* اس سے متعلق غلط تصورات کو مہمیز ملتی ہے

* حیرت انگیز طور پر، ایک قدرتی عمل

* جو کہ انسانی بقا کا ضامن ہے، یہاں شجرِ ممنوعہ کی مانند ہے

* بچیوں سے ان کے پہلے حیض سے قبل اس متعلق بات نہ کرنے کی وجہ سے

* انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ حیض کے دوران انہیں کیا کرنا چاہیے

* بہت سے ممالک میں، خواتین حیض سے متعلق

* اپنی خاموشی کو توڑنے لگی ہیں

* وہ خون لگی چادروں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر رہی ہیں

* کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ حیض سے جڑے ‘کلنک’ کو دھویا جا سکے

* ان کا کہنا ہے کہ اس موضوع کو چھپایا نہیں جانا چاہیے

* لیکن پاکستان میں یہ آج بھی ممنوعہ موضوعات میں سے ایک ہے

* 2016 میں بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کی چند طالبات نے

* اس پر مہم چلاتے ہوئے سینیٹری پیڈز پر کچھ پیغامات لکھ کر

* انہیں یونیورسٹی کی دیواروں پر چسپاں کر دیا تھا

* تاہم، جہاں ان کی حمایت میں بھی آوازیں اٹھیں،

* زیادہ تر لوگوں کا ردعمل منفی تھا

* اور یونیورسٹی کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا

* کیا پاکستان میں کبھی بھی

* اس موضوع سے متعلق سرعام گفتگو ہو سکے گی؟

https://www.youtube.com/watch?v=wyI_ZImiqOI&feature=youtu.be