جتنا وہ باہر سے نفیس نظر آتا تھا اندر میں اس سے کئی دفعہ زیادہ غلیظ تھا۔ یہ راز تب افشاں ہوا جب اس کے خلاف ٹیکنالوجی کے ٹھوس شواہد سامنے آئے۔ ادارے کے ساتھی، دوست احباب، خاندان والے، پڑوسی اور یہاں تک کے ان کی بیگم سب شواہد سن کر حیران رہ گئے کے اتنا میٹھا، نفیس اور سفید پوش شخص اپنے اندر اتنا زہر کیسے چھپائے ہوا تھا؟! جناب جس ادارے میں افسر تھے وہاں اپنے ہی ساتھیوں کو جھوٹے فیس بک اکائونٹ بنا کر تنگ کرتے۔ کبھی کسی کی بیٹیوں اور بہنوں سے لے کر والد محترم تک کو نشانہ بناتے، کسی کی تحقیق، اثاثوں اور نوکری میں ترقی پر سوال اٹھاتے، اگر اس سے ان کا ہدف حاصل نہیں ہوتا تو پھر سافٹ وئیرس کی مدد سے کسی کا چہرا بگاڑتے، کسی کو مرد سے عورت بناتے، کسی کی تصاویر کتوں کے ساتھ لگاتے، کسی کی آدھی پینٹ اتارتے، کسی کو چار پائی پر لیٹا ہوا دکھاتے، کسی کے ہاتھ میں شراب کی بوتلیں پکڑے ہوئے دکھاتے، کسی کا پیٹ پھاڑتے، کسی کے سر کے بال مکمل اتار دیتے، کسی خاتوں کے ساتھ بیٹھے یا کھڑے ہوئے مرد پر ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر کیپشن لکھتے، اس طرح کی حرکتیں وہ بڑی ایمانداری سے دہراتے رہتے تھے۔ یہ سب کچھ کرنے کا مطلب ادارے کے ساتھیوں اور افسران کو رسوا اور بدنام کرنا تھا۔
ادارے میں کام کرنے والوں کی بڑی تعداد پریشان تھی کے یہ ہے کون؟ ان حرکتوں سے تنگ افسران جب اکائونٹ چلانے والے کی کھوج کے لیے بات چیت کرتے، کسی پریشانی کا اظہار کرتے تو اکثر ان اجلاسوں اور مجلسوں میں بھی یہ نفیس انسان خاموشی سے اپنا زہر چھپائے بیٹھا رہتا۔
جب متعلقہ ادارے کو فیس بک انتظامیہ، پاکستان ٹیلیکمیونیکیشن اتھارٹی اور موبائل کمپنیز نے رکارڈ اور شواہد مہیا کیے تو اس دوگلے شخص کی نفاست کا بھرم ٹوٹ گیا۔ نفیس شخص کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی، ہتھکڑی کھلوانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا گیا، عدالت میں بتایا گیا کے جناب پی ایچ ڈی اسکالر ہیں، ہتھکڑی لگانا ایک عالم کی توہین ہے اور وہاں ہی ظالم کے ہاتھ کھل گئے۔ یہ ہے ہمارا عدل کا نظام۔
بابائے جھوٹ نے آگے چل کر عدل اور انصاف کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ جس معزز جج کے پاس مقدمے کی سماعت تھی اس کو بھی اپنی چالاکی سے پھنسانے کی کوشش کی۔ پہلے الزام عائد کیا کے جج کے بھائی نے پیسے طلب کیے ہیں، جب اس الزام کے شواہد طلب ہوئے تو وہ الزام چھوڑ کر نیا الزام تخلیق کیا، کہا گیا کے جج صاحب میرے پاس پڑھے ہیں، میں ان کا استاد رہا ہوں، ان کو یہ مقدمہ شفافیت اور انصاف کے اعلیٰ مفاد میں نہیں سننا چاہیے۔ اعلیٰ عدالت کے جج نے کہا کے کوئی شاگرد انصاف کے عمل کے دوران اپنے استاد سے ناانصافی کیسے کر سکتا ہے، اس پر ملزم مطمئن نہیں ہوئے، عدالت نے استاد سے شاگردی کے شواہد طلب کیے تو کہا کیس منتقلی کی درخواست واپس لیتے ہیں۔ نہ وہ شاگرد تھا، نہ پیسے مانگنے والے کے شواہد آئے، مقدمے کا کافی وقت اس بحث میں ضائع ہوا۔
جس موبائل فون کو تصاویر بنانے اور پوسٹ کرنے کے لیے زیادہ استعمال کیا گیا تھا، اس کی جب فارینزک رپورٹ آئی اور اعمال نامے سے خوفزدہ ہو کر نفیس شخص نے کہا یہ میرے بیٹے کا "گیمنگ موبائل" ہے مجھے اس کے بارے میں علم نہیں۔ یعنی ادارے میں کام کرنے والوں کی بہنوں، بیٹیوں اور والدین پر جھوٹی شناخت والے فیس بک اکائونٹ سے جو بھی کیچڑ پھینکا جاتا رہا ہے، ساتھی افسران کی پھٹے ہوئے پیٹوں اور اتری ہوئی پینٹوں والی جو نازیبہ تصاویر پوسٹ ہوتی رہی ہیں، ان سے میرا تعلق نہیں۔ یہ میرے بچے کا کھیل ہے۔ جو کھیل نفیس شخص خود کھیل رہا تھا۔
اس کھیل کا مستقبل میں اس ہی ادارے کے اندر اس کو انعام بھی ملنا تھا۔ یہ بات کسی کے تصور میں نہیں تھی۔ ایک عدالت سے سزایافتہ اور اگلی عدالت سے رہائی پانے والا نفیس ملزم جب بحال ہوا تو اس کے لیے ادارے میں استقبالیہ قائم کروایا گیا، اس کو پھولوں کے ہار پہنا کر یہ تاثر جوڑنے کی کوشش کی گئی کے ایسی کوئی بات ہوئی نہیں، یہ معصوم بچارا تو غلطی سے گرفتار ہوا اور سزا کھائی۔
نفیس کی حرکتوں سے جن کو فیض حاصل ہوا انہوں نے ادارے میں ملزم کا مثبت تاثر اور خاکہ جوڑنے کے لیے ہر وقت دو چار ملازمین اس کے ساتھ ساتھ رہنے کی سہولت بھی مہیا کی۔ ادارے میں جو ”گریٹ اسٹیٹ مین“ تھا اس نے پیچھے پیچھے چلنے والا کام دو سال تک بڑی ذمہ داری سے ادا کیا۔ ہر کوئی یہ امید لگائے بیٹھا تھا کے جیل سے رہائی کے بعد شیخ الجامعہ کے دفتر میں لڈو کھانے والے کی سفارش سے ہی اب سب کام ہوں گے۔
محتاج معاشرے کے اندر ہر کوئی کسی بااثر یا لشکر اور جتھے کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ اس واقعے میں بھی کچھہ ایسا ہی ہوا ہے۔ نفرت کی دیوار کھڑی کرنے والا، اپنے ادارے کے ساتھیوں کو اپنے اندر کے زہریلے سانپ سے ڈسنے والا آج کل بڑی معرفت اور مسیحا بن گیا ہے۔
ایسا سائبر کرمنل جس نے جھوٹے فیس بک اکائونٹ بنانے کے لیے اپنے سسر کے گھر کا استعمال کیا، وہاں سے انٹرنیٹ چلایا جو ٹیلیفون نمبرپر تھا۔ جب پکڑا گیا تو ٹیکنالاجی کے ٹھوس شواہد نے اس کے اندر کی غلاظت کو باہر لا کر معاشرے میں اس کی نئی شناخت بنا دی۔ وطن عزیز میں ایسے کرداروں کی پالنا کرنے والے کہتے ہیں ”دیکھو مگر پیار سے“۔