براڈ شیٹ کیس میں پاکستان کو بھاری بھرکم جرمانے کی خبر سے شروع ہونے والا اب نئی نئی شکلیں اپنا رہا ہے اور یہ تسلسل جاری و ساری ہے۔ براڈ شیٹ کمپنی کے مالک موسووی نے پاکستان سے بھاری بھرکم جرمانہ برطانوی عدالت کے ذریعے وصول پایا ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلسل ایسے انکشافا بھی کر رہا ہے جس میں پاکستان کے بڑے بڑوں کے نام بد عنوانی کے سیاق و سباق کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ ان میں موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ ترین اور طاقتور ترین عہدہداران کے نام بھی شامل ہیں۔
اسی سلسلے کی تازہ ترین پیش رفت صحافی سید طلعت حسین کی ٹویٹ ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ افواج پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدہداران کا کہن اہے کہ پاکستانی فوج کے افسران کا موسوی سے ڈیل کے بدلے کمیشن مانگنے کے دعووں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ معاملہ خالصتاً سویلین حکومت دیکھ رہی ہے۔
سید طلعت حسین نے ٹویٹ میں لکھا کہ بریکنگ نیوز: اعلی سکیورٹی ذرائع کے مطابق براڈشیٹ کے ساتھ معاملات کو سویلین حکومت دیکھ رہی تھی اور فوجی حکام کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سکیورٹی ذرائع نے کاوے موسوی کے مطابق ہونے ملاقاتوں کو فرضی اور گھناؤنی الزام تراشی قرار دیا ہے۔
https://twitter.com/TalatHussain12/status/1349700897056686080
اس پیش رفت کے پس منظر میں یہ اہم ہے کہ براڈ شیٹ کے مالک کاوے موساوی کا سماء ٹی وی پر ندیم ملک کے ساتھ انٹرویو سب سے حیرت انگیز تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ایک پاکستانی جنرل ان سے ملنے کے لئے آئے اور انہیں پیشکش کی وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کر لیں اور وہ ساری معلومات ان کے ساتھ شیئر کریں جو موساوی کے پاس نواز شریف خاندان کے حوالے سے موجود ہیں۔ جب ندیم ملک نے ان سے پوچھا کہ یہ جنرل کون تھے، تو موساوی نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کیونکہ وہ اپنا نام بتانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے مجھے کال کی اور کہا کہ ایک وفد ہے جو آپ سے ملنا چاہتا ہے، میں ملنے کے لئے راضی ہو گیا۔ تاہم، اس ملاقات میں اس جنرل کے ساتھ ان کی کیا بات ہوئی، اس پر انہوں نے پروگرام کے دوران زیادہ تفصیلاً بات نہیں کی۔ مگر اس کا احوال اب مارچ 2019 میں امریکہ سے لکھے گئے ایک خط میں واضح طور پر سامنے آ چکا ہے۔ اس خط کی کاپی سینیئر صحافی سید طلعت حسین نے ٹوئٹر پر اپلوڈ کی ہے۔ اس خط میں صرف اسی ملاقات کا نہیں بلکہ بہت سی ملاقاتوں، ٹیلی فون کالوں اور برقی پیغامات کا ذکر ہے۔ اور ان پیغامات میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے افراد کے نام بھی سامنے آتے ہیں۔
اس خط میں ایسے واقعات کا ذکر ہے کہ جب موساوی کو پاکستانی اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے رشوت کی پیشکش کی گئی یا ان سے ریکوری میں سے اپنا حصہ مانگا گیا۔ موساوی کے مطابق برطانیہ میں ایک پاکستانی نژاد وکیل بیرسٹر ظفر علی، کیو سی ان سے رابطے میں رہے اور وہ متعدد پیغامات کے ذریعے اپنی وزیر اعظم عمران خان، مشیر احتساب شہزاد اکبر، اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ISI اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ISI فیض حمید سے ملاقاتوں کا احوال بیان کرتے رہے۔ جس ملاقات کا ذکر موساوی نے ندیم ملک کے پروگرام میں کیا، اس میں بھی ان سے اسی قسم کی گفتگو کی گئی۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کو ہم نیا کانٹریکٹ دیتے ہیں، آپ شریف خاندان کے خلاف تمام معلومات ہمیں فراہم کر دیں۔ اس ’جنرل‘ کے بقول بھی وہ ISI سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ ISI پانامہ پیپرز پر پاکستان میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لئے بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی JIT میں بھی ملوث ہے اور اس معاملے کو براہِ راست دیکھ رہی ہے۔ موساوی کا دعویٰ ہے کہ وہ اس رشوت کی پیشکش کو اسی وقت ٹھکرا کر یہاں سے نکل کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ انہوں نے ان صاحب کی کافی کا بل تک ادا نہیں کیا کیونکہ وہ ان کے ساتھ کسی قسم کے مراسم نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ موساوی کے وکلا کی جانب سے اس خط میں کہا گیا ہے کہ یہ شخص جو خود کو جنرل ملک کہتا تھا، اس نے موساوی سے پوچھا کہ پاکستان میں بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کو 25 ارب ڈالر اس معاملے میں کیوں ملنے چاہئیں؟ موساوی نے جواب دیا کہ کون سے 25 ارب ڈالر؟ تو جنرل ملک نامی شخص نے جواب دیا کہ پاکستانی حکومت کے مطابق 100 ارب ڈالر ملک سے باہر لوٹ کر لے جائی گئی دولت کو آپ پاکستان واپس لانے میں مدد دیں گے تو اس میں سے 25 ارب ڈالر آپ کو کیوں ملیں؟ اگر آپ اس میں میرا حصہ دینے کو تیار ہوں تو میں آپ کو ایک نیا کانٹریکٹ دلوا سکتا ہوں۔ موساوی کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ بات سن کر غصے میں فوراً وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور بعد ازاں ان سے بیرسٹر ظفر علی نے پوچھا کہ کوئی فیصلہ ہوا یا نہیں تو موساوی نے ان سے کہا کہ مقدمے کا فیصلہ تو نہیں ہوا، البتہ پاکستان سے رابطے ہنوز جاری ہیں۔