ایک کے بعد ایک ریل حادثہ اور تبدیلی سرکار کی بے حسی

ایک کے بعد ایک ریل حادثہ اور تبدیلی سرکار کی بے حسی
پاکستان کی تاریخ حادثات سے بھری پڑی ہے چاہے وہ حادثہ ریل کا ہو، ہوائی جہاز کا یا پھر بس کا۔ان حادثات کی اکثریت انفرادی یا اجتماعی غفلت اور لاپروائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ میں کچھ عرصہ قبل بھی ریل گاڑی کے ہونے والے بدترین حادثہ پر تحریر کر چکا ہوں۔ مگر افسوس کہ ہم حادثات سے سبق دیکھنے کی بجاۓ اور ان پر قابو پانے کی بجاۓ کچھ عرصہ بعد پھر ایک نئے حادثہ کا شکار ہوتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ریل کا ایک خطرناک حادثہ پیش آیا ہے۔اس سے قبل موجودہ حکومت میں خطرناک حادثات میں سے ایک حادثہ کراچی سے پنجاب جانے والی تیزگام کے ساتھ پیش آیا تھا جس میں لگ بھگ ایک سو (100) کے قریب مسافر لقمہ اجل بنے تھے اور اس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب اس حادثہ کی ذمہ داری چند مسافروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو گئے تھے جبکہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے سانحہ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
اور اس تحقیقات کے نتیجہ کا قوم کو اب تک انتظار ہے۔جب جب بھی موجودہ حکومت میں کوئی حادثہ بالخصوص ریل کا حادثہ رونما ہوتا ہے تو مجھے نئے پاکستان کے دعوے دار وزیراعظم عمران خان صاحب کا وہ بیان یاد آ جاتا ہے جب وہ اپوزیشن میں تھے اور اس وقت چلتی ریل گاڑی کی ٹکر سے پھاٹک موجود نہ ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل رکشہ میں سوار سکول کے سات بچے جاں بحق ہو گئے تھے۔جس پر خان صاحب نے ریلوے وزیر سے فی الفور مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے حادثہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔اس ضمن میں خان صاحب کا نکتہ یہ تھا کہ متعلقہ وزیر مستعفی ہو ورنہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ شفاف تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
ابھی اگر تازہ حادثے کا ذکر کریں تو اس میں ملت ایکسپریس اور سرسید ایکسپریس میں تصادم کی صورت میں کم و بیش ساٹھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور کافی تعداد زخمی افراد کی بھی ہے۔اس حادثہ کے بعد موجودہ حکومتی ذمہ داران کے وہی رٹے رٹائے بیانات سامنے آئے جو کہ ہر دور حکومت میں حکومتی افراد کا وطیرہ ہوتا ہے۔اعظم سواتی موجودہ وزیر ریلوے ہیں جس طرح پچھلے دور حکومت میں پی پی پی کے دور میں ان کا متعلقہ محکمہ کوئی بھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا تھا۔اسی طرح اب ریلوے کے محکمہ میں بھی ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
موجودہ حادثہ کے بعد ایک دفعہ پھر متعلقہ حکومتی ذمہ داران بشمول وزیراعظم اور وزیر ریلوے نے متاثرہ عوام اور ان کے غمزدہ لواحقین کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔موصوف اعظم سواتی صاحب جو کہ پچھلے کئی برسوں سے وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں، انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی ہے کہ وہ بھی اس حادثہ پر بہت غمزدہ ہیں اور ان کو جاں بحق ہونے والے بچوں کو دیکھ کر اپنے پوتے،پوتیاں یاد آ گئے۔
جناب وزیر صاحب اب اخلاقیات کا تقاضہ تو یہ بنتا ہے کہ آپ اپنے عہدہ سے استعفی دیں اور اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے مختلف ایجنسیوں یا عدالتی اہلکاروں پر مبنی غیر جانبدار کمیٹی بنے جو کہ اس کی تحقیقات مکمل کرے۔اور اس میں بنیادی کردار وزیراعظم کا بھی ہے جن کو چاہیے کہ متاثرہ لواحقین کو انصاف دلائیں۔متعلقہ ریلوے افسران کو بھی انکوائری کی زد میں لایا جاۓ۔
میں امید کرتا ہوں کہ نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے عمران خان صاحب اپنے الفاظ کو عملی رنگ میں بھی پورا کریں گے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ اپنے ماضی کے بیانات کا جائزہ لےکر ان پر عمل کریں گے۔اس صورت میں ان کو چاہیۓ کہ متعلقہ ذمہ داران جن میں وزیر ریلوے سر فہرست ہیں،ان کے استعفی لیں یا ان کو عارضی طور پر کام سے روک دیں اور اس واقعہ کی غیر جانبدار تحقیقات کروا کے رپورٹ کو پبلک کیا جاۓ۔اس کے بعد ذمہ داران کو سزا دی جاۓ اور بے گناہوں کو عہدوں پر بحال کر دیا جاۓ۔
اگر خان صاحب بھی ماضی کے بیشتر حکمرانوں کی طرح اپنے دوہرے معیار ختم کرنے میں ناکام رہے تو نیا پاکستان کا نعرہ محض الفاظ کی صورت میں ہی رہ جاۓ گا۔اس صورت میں عوام کو موجودہ حکمرانوں سے بھی بدظن ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔