کچھ عرصہ قبل ایک چینی سائنسدان نے یہ اعلان کیا تھا کہ انہوں نے رحم مادر میں موجود بچے میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں کی ہیں جن کے باعث وہ پیدائشی طور پر ایچ آئی وی کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
اس خبر نے سنسنی پھیلا دی تھی جس کے بعد دنیا بھر کے ماہرین نے بچوں میں جینیاتی تبدیلیاں کرنے کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔
مختلف ملکوں کے ماہرین اور حیاتی اخلاقیات کے کارکنوں نے انسانی انڈے، بیضے اور ایمبریو میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرنے پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کے مطالبات پر فوری طور پر عمل کیا جائے تاکہ انسانی بچوں اور ان کے جینیاتی نظام میں تبدیلیاں نہ لائی جا سکیں۔
چینی ماہر پر دنیا بھر کے ماہرین نے شدید تنقید کرتے ہوئے ان کی اس تحقیق کو نسل نوع انسانیت کے لیے خوفناک قرار دیا ہے۔ نیچر نامی سائنس جریدے میں اس حوالے سے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کروا دیا گیا ہے۔
سائنس دان چاہتے ہیں کہ انسانی نطفے اور بیضے کے کسی خلیے میں بھی کسی قسم کی تبدیلی نہ کی جائے۔
ماہرین ان خدشات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس طرح ان تبدیلیوں سے نہ صرف انسانی نسل متاثر ہوگی بلکہ اس کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ عالمی پابندی اس وقت تک برقرار رہنی چاہئے جب تک اس حوالے سے اصول و ضوابط وضع نہیں کر لیے جاتے۔ ایک اور ماہر نے کہا کہ انسانی جین میں تبدیلی مستقبل کی نسلوں تک سفر کر کے پوری نوع پر نہایت منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ برطانوی ڈاکٹر فرانسیس کولنس نے بھی ان مطالبات کی تائید کی ہے۔