ٹک ٹاک کیس: ہر چیز پر پابندی، ایسے تو پورا انٹرنیٹ ہی بند کرنا پڑے گا: اسلام آباد ہائی کورٹ

ٹک ٹاک کیس: ہر چیز پر پابندی، ایسے تو پورا انٹرنیٹ ہی بند کرنا پڑے گا: اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ٹک ٹاک پر پابندی کیس کی سماعت کے دوراناستفسار کیا کہ ٹک ٹاک پر پابندی کیوں لگائی گئی؟ کیا یہ سیکیورٹی وجوہات پر تو انہیں لگائی گئی اور اگر یہ وجہ ہے تو سارا انٹر نیٹ ہی بند کرنا پڑے گا۔ معزز جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسا تو نہیں کہ اگر موٹروے پر کوئی سانحہ پیش آگئی تو موٹروے ہی بند کر دی جائے۔

اطلاعات کے مطابق ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواست شہری اشفاق جٹ نے دائر کروائی۔ درخواست میں سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی ،سیکرٹری کابینہ ڈویژن اور چیئرمین پی ٹی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی اور واضح حکم جاری کیے بغیر صرف پریس ریلیز کے ذریعے ہی اسے بند کر دیا گیا۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 ون کے تحت کسی بھی چیز پر عارضی معطلی کا کوئی تصور نہیں تاہم پی ٹی اے نے وفاقی حکومت یا کابینہ کی منظوری کے بغیر پابندی کا فیصلہ کیا جو پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی ہے لہٰذا پی ٹی اے کو ٹک ٹاک پر پابندی ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ ٹک ٹاک ہے کیا چیز؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ یہ سوشل میڈیا ایپ ہے جس میں ویڈیوز شئیر کی جاتی ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اسکا فیصلہ کون کرتا ہے کہ یہ مواد غیراخلاقی ہے اور یہ غیراخلاقی نہیں؟ وکیل نے جواب میں کہا کہ اسکے رولز فریم نہیں ہوئے تاہم عدالت نے پی ٹی اے کو 90 دن کا وقت دیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہ سکیورٹی کی وجہ سے تو پابندی نہیں لگائی گئی؟ اس طرح تو پورا انٹرنیٹ بند کرنا پڑے گا، یہ تو نہیں کہ موٹروے پر کوئی جرم ہوگیا تو موٹروے کو ہی بند کر دیا جائے ، پھر تو سارے چینل بھی بند کردیں۔ تاہمعدالت نے ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواست پر پی ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پی ٹی اے کے سینئر افسران کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔