سول اور فوجی بیوروکریسی، بڑا کاروباری طبقہ، شہری مڈل کلاس، عوامی نمائندے حتیٰ کہ آزاد پریس نے بھی یحییٰ خان کے فوجی ایکشن کو سراہا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ میں فیصلہ ساز حلقوں کا تعلق پنجاب سے تھا اور خصوصاً لاہور اور کراچی کا قومی امور پر گہرا اثر تھا۔
یہ سب حلقے عوامی لیگ اور اس کےاس بیانیے سے خائف تھے جو کہ پاکستان میں مروجہ معاشی اور سیاسی نظام کو چیلنج کر رہا تھا۔ جنرل یحییٰ خان بنگالی مطالبات صرف روایتی ریاستی ڈھانچے کے اندر ہی قبول کر سکتے تھے، وہ ڈھانچہ جو مغربی پاکستان کے مفادات کا بھرپور تحفظ کر رہا تھا۔