چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
اونچی اونچی آواز میں بولنے والی زبانوں پر تالے لگا دیے جائیں، موٹی موٹی آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے والوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جائیں، غور غور سے سننے والوں کے کانوں میں روئی ٹھوس دیجیے۔ کہنے، سننے اور دیکھنے کی صلاحیت جب مکمل مفلوج ہو جائے تو اس چراغ کو بھی بھجا دیا جائے، جو رات کی تاریکی کو پھیلنے میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔

بولنے کی سکت اس لیے چھینی جائے کے کوئی سوال نہ کر سکے، کیونکہ سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ سننے اور دیکھنے کی صلاحیت اس لیے ختم کر دی جائے کہ کوئی یہ سب کچھ جان نہ لے کہ یہ لوگ واقعی اتنے نااہل اور نکمے ہیں۔ لیکن دیکھنے، سننے اور بولنے کی اس پابندی سے ان لوگوں کو مکمل مستثنی حاصل ہے، جو ہاں میں ہاں ملائیں۔ ناصرف ان کے جھوٹ کو سچ بتائیں بلکہ ناکامی کو بھی کامیابی دیکھائیں۔

گذشتہ دنوں جنگ، جیو اور دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کو نیب لاہور نے پیشی کے موقع پر گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ایک کنال کے 54 پلاٹ اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب نواز شریف سے حاصل کیے تھے۔ تاہم، ملزم کا دعوی ہے کہ انہوں نے پرائیویٹ افراد سے زمین خریدی ہے۔

اب یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ 34 سال بعد ہی نیب کو اچانک اس کیس کا خیال کیسے آ گیا؟

بات صاف ظاہر ہے کہ اس ادارے نے ہمیشہ بغیر تحقیق کے لوگوں کی گرفتاریاں اور پگڑیاں اچھال اچھال کر اپنی ساکھ مکمل تباہ کر دی ہے۔ ایک آمر کی طرف سے اس ادارے کا قیام ہی سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے کیا گیا تھا۔ کیونکہ اس سب کیلئے جب ایف آئی اے موجود ہے تو پھر اس ادارے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اب بھی وقت ہے کہ اس ادارے کو ختم کر کے ڈکٹیٹر کی باقیات کو فنا کیا جائے تاکہ معزز اور شریف شہریوں کی عزتیں محفوظ کی جا سکیں۔

پاکستانی چند اداروں میں سے جنگ گروپ واحد ایسا ادارہ ہے جس نے ہمیشہ جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑی ہے اور آزادی اظہار رائے کی خاطر غاصب حکمرانوں کی جانب سے مزاحمت کا بھی سامنا کیا ہے۔ اس گروپ کی سب سے اہم بات یہ کہ اس میں کام کرنے والے مختلف آرا یا مکتب فکر والے افراد ہیں، جن میں اعتدال پسند حامد میر، لبرل خیال شاہ زیب خانزادہ اور مذہبی خیالات کے حامی انصار عباسی جیسے لوگ ہیں، جو جمہوریت کے حامی اور سخت ترین اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ سے مراد فوج نہیں بلکہ چند بیوروکریٹ، آمریت پسند جنرل اور ان کے ٹاؤٹ سیاستدان ہیں۔ جو جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنا کر اپنے اشاروں پر نچانا چاہتے ہیں۔ جمہوریت پسند یہ صحافی چاہتے ہیں کہ ہمیشہ جمہوریت کا علم بلند رہے۔ اور یہی اس ادارے کا سب سے بڑا جرم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا تعلق ایسی قوم سے ہے جس کی عوام سے لے کر حکمرانوں سمیت آج تک کسی ایک معاملے پر بھی ہمارا اتفاق نہیں رہا، اور میڈیا میں بھی ایسا ہی ہے، نہ صحافی ایک پینل پر ہوتے ہیں اور نہ یہ ادارے۔

عالم تو یہ ہے کہ اپنی خبر میں جب کہیں کسی دوسرے میڈیا گروپ کا ذکر آ جائے تو بجائے اس کا پورا نام لکھنے کے نجی ٹی وی، یا نجی ادارہ لکھ دیتے ہیں۔ ہمارے ان اختلافات کا فائدہ پہنچتا ہے جمہوریت دشمن قوتوں کو، کیونکہ ان کی ہمیشہ یہ کاوش ہوتی ہے کہ جمہوریت کا کوئی ایک ستون بھی مضبوط نہ ہو، تاکہ یہ جمہوریت لنگڑی رہے۔

میر شکیل الرحمان کے خلاف نیب کی کارروائی پر کچھ لوگ بہت طبلے بجا رہے ہیں، ان کیلئے احمد فراز کی یہ غزل پیش خدمت ہے۔

یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں

یہاں خود اپنے لیے بھی دعا کسی کی نہیں

خزاں میں چاک گریباں تھا میں بہار میں تو

مگر یہ فصل ستم آشنا کسی کی نہیں

سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں

نگاہ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

فرازؔ اپنی جگر کاویوں پہ ناز نہ کر

کہ یہ متاع ہنر بھی سدا کسی کی نہیں

مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔