محمد افتخار الدین، افتخار نسیم افتی کو اردو ادبی سرکل میں کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے پہلی نظم سولہ سال کی عمر میں لکھی- اردو کے اعلیٰ رسالہ فنون اور اوراق میں چھپتا رہا- پچھلی صدی کی ستر کی دہائی کے شروع میں وہ امریکا چلا گیا اور شکاگو کو اپنا گھر بنا لیا- وہ بہت سارے سماجی کاموں میں حصہ لیتا جن میں سے ایک 'اپنا گھر' بھی تھا- جو کہ گھریلو تششد کا شکار عورتوں کی مدد کرتا ہے- اس کے علاوہ اس نے 'سنگت ' کا ایک گروپ بنایا جس میں جنوبی اشیا کے Lesbians Gays and (LGBT)شامل ہیں- 1993 میں افتی تیسری دنیا کا پہلا شاعر تھا جس نے Harold Washington Library میں اپنی شاعری پڑھی- 1994 میں South Asian Family Services of Chicago نے اسے رابندر ناتھ ٹیگور
Poet Laureate Award دیا- 'ایک قابل اعتراض' نظم لکھنے پر جب مذہبی انتہا پسندوں نے اسے قتل کی دھمکی دی تو اسے خاموشی سے مجبوراً پاکستان چھوڑنا پڑا- افتی کی دو کتابیں ہیں، غزال اور نروان- نروان فارسی کا لفظ ہے۔ HERMAPHRODITE ایک یونانی خدا جو کہ آدھا مرد اور آدھا عورت ہے-پہلی کتاب میں غزلیں ہیں مگر دوسری کتاب 'نرمان' میں زیادہ تر شاعری 'ہم جنسیت ' کے تجربات پر مشتمل ہے-آپ اس کو اردو ادب میں سنگ میل بھی کہہ سکتے ہیں-کیونکہ یہ اردو کی یقیننا پہلی کتاب ہے جس میں 'ہم جنسی' کے تجربات بیان کئے گئے ہیں جس میں ہم جنس آدمی کے تجربات اور مسائل بیان کئے گئے ہیں-
اس میں عورتون اور مذہبی اقلیتون کو در پیش مسائل بھی بیان کئے گئے ہیں- افتی اپنے ایک پاکستان کے دورے کے دوران اپنی زندگی کے بارے میں کھلی اور سچی باتیں کرنے کی لئے تیار ہو گیا-
' میں 15 ستمبر 1946 میں لائلپور میں پیدا ہوا، جس کا مطلب ہے میں ' انتشار' کی پیداوار ہوں'-ان کے والد خلیق قریشی، ایک مقامی روزنامہ 'عوام' کے بانی ایڈیڑ اور شاعر تھے-'میرا باپ ایک کامیاب آدمی اور شاعر تھا- مجھے اس کے قریب ہونے کا موقع نہ ملا کیونکہ میری والدہ جب میں سات/ آٹھ سال کا تھا تو مر گئی تھی- مجھے وہ خواب لگتی ہے- میرے باپ نے ایک اور شادی کر لی مگر وہ میرے باپ کے پہلی شادی سے سات بچوں کو نہ سنبھال سکتی تھی- سو میرا باپ ہمیں شہر کے مکان میں چھوڑ کر پیپلز کالونی چلا گیا جو کہ شہر سے باہر ایک کالونی تھی- میں اپنے باپ کو کبھی کبھار ملتا تھا جب مجھے سکول یا گھر کی لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی-ہمارے محلہ دار ہی ہمارا کنبہ تھے-'
افتی نے جب وہ سکول میں تھا تو لکھنا شروع کر دیا تھا ' میں غالبا دس سال کا تھا جب میں نے نثر کا پہلا صفحہ لکھا- پہلے میں افسانہ نویس بننا چاہتا تھا-یہی وجہ تھی کہ میں اردو کے بہت افسانے پڑھتا تھا۔ کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، قراۃ العین حیدر ، راجندر سنگھ بیدی اور اعجاز نسرین، { بہن} میرے پسندیدہ لکھاری تھے- پھر میں عدیم ہاشمی سے ملا جس نے مجھے شاعری کی طرف راغب کردیا'۔ اسی عمر میں افتی نے محسوس کرنا شروع کیا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے-'
حتیٰ کہ بطور ایک لڑکے کے میں کسی کو اپنے صحیح جذبات نہیں بتا سکتا تھا- مجھے پتہ تھا کہ یہ پسند نہیں کئے جاتے سو میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا- مجھے نہیں معلوم میں اپنے ہم جنسوں کے قریب کیوں ہونا چاہتا تھا- میں ایک شخص کی محبت میں گرفتار ہو جاتا تھا جسے میں حاصل نہیں کر سکتا تھا- اب میں تجزیہ کر سکتا ہوں کہ میں جان بوجھ کر یہ کھیل اپنے ساتھ کھیل رہا تھا- کسی سے کوئی اظہارجذبات نہیں اور کوئی قربت بھی نہیں لیکن اپنے تصور میں سب کچھ کرتا تھا-'
افتی اچھا طالب علم تھا اس نے بی اے گورنمنٹ کالج لائلپور سے کیا-'یہ بہت ہی خوبصورت کالج تھا' اس نی یاد کیا- اس کے ہم عصروں میں شمیم احمد خاں ، سابقہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی، بیرسڑ اعجاز فیروز، سیکریڑی لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن، حامد یسینٰ، سابقہ ممبر قومی اسمبلی ، سہیل احمد خان، ہیڈ اورینٹل کالج شعبہ اردو -اس زمانے میں کالج میں بھر پور علمی فضا تھی اور لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرتے تھے- لا کالج سے ڈ گری لے کر وہ امریکہ چلا گیا ایک ایسی زندگی کی تلاش میں جہاں وہ اپنی مرضی کی زندگی گذار سکے اور ایمانداری سے زندگی گذار سکے-
بطور ایک ایشین مہاجر اور ہم جنس پرست اسے وہاں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا-'ایشین ہم جنس پرست 'اقلیت' میں بھی 'اقلیت' ہیں۔ جنہیں اپنے لوگ بھی قبول نہیں کرتے کیونکہ ان کا اپنے بارے میں بھی کوئی اچھا تصور نہیں تھا- ہم جنس پرستی کا پتہ چل جانے کا خوف ان کی صلاحیتوں کو کچل دیتا تھا- ان میں رد عمل ہوتا تھا- ایک یہ کہ وہ اپنے ورثہ اور ثقافتی پس منظر کی نفی کر دیتے تھے اور مغربی معاشرہ میں ضم ہو جاتے تھے- جس معاشرہ میں آپ رہ رہے ہیں اس میں گھل مل جانے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ آپ کو احساس نہ ہو کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں اور آپ کو معلوم نہ ہو کہ آپ کہاں جارہے ہیں-
دوسرا اپنے جنسی لگاؤ کو نہ مان کر وہ شراب کے عادی{الکوحلک} یا نشئی بن جاتے ہیں اور اپنے خوابوں اور امیدوں کو دفن کردیتے ہیں- میں نے اپنے دوست ویرو جوشی کی مدد سے 'سنگت ' کے نام سے ایک تنظیم بنائی- ہمارا کام پریشان ہم جنس پرستوں کو نفسیاتی تھراپی دینا اور ان کا اپنے بارے میں تصور اچھا کرنا اور اپنی عزت بڑھانا ہے۔ ان کی مدد کرنا کہ وہ اپنے آپ کوپہچانیں کہ وہ کیا ہیں اور انہیں معاشرہ اور خاندان کا مفید فرد بنانا ہے- ہم گھریلو تشدد کی شکار بیویوں کی بھی 'اپناگھر' کے ذریعہ مدد کرتے ہیں-
افتی خود آگاہی کے عمل کو بہت آہستہ اور تکلیف دہ کہتے ہیں۔ 'جب مجھے پتہ چلا کہ میں ہم جنس پرست ہوں تو میں مکمل طور پر ٹوٹ گیا- مجھے زندگی بے مقصد لگی-مجھ میں خود کشی کا رجحان بڑھ گیا مگر میں خوش قسمتی سے ایک نفسیات دان چندر ناتھ آہوجہ سے ملا- اس کی تھراپی سے مجھے معلوم ہوا کہ زندہ رہنے کے اور بہت سارے بہانے ہیں- لوگوں کی خدمت کرنا میری زندگی کا مقصد بن گیا'۔ 'کسی نی مجھے ہم جسن پرست نہیں بنایا- میں اسی طریقہ سے پیدا ہوا تھا-بات یہ ہے کہ میں نے اپنے بارے میں جھوٹ نہیں بولا- بہت سارے ہم جنس پرست نام نہاد شادی کی پیچھے پناہ لیتے ہیں۔ والدین، معاشرہ اور رشتہ داروں کو یہ ثابت کرکے خوش ہوتے ہیں کہ ان کا بیٹا' بیمار' نہیں ہے۔ وہ ٹھیک ہے۔ لیکن یہ جھوٹ آخر میں سب کو تباہ کر دیتا ہے۔ ہمیں سچ کو مان لینا چاہئے۔ خواہ وہ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔ ' افتی کے اپنے خاندان کا ردعمل بہت سخت تھا- میرا باپ کئی سال پہلے مر چکا تھا-لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس کو سمجھ سکتا تھا۔ جب میرَے بھائی کو اس کا پتہ چلا تو اس نےمجھے عاق کردیا۔ اس نے میرے سے پچھلے پندرہ سالوں سے کلام نہیں کیا'-
افتی نے بتایا کہ وہ پاکستان یا امریکہ میں پرسیکیوشن سے نہیں ڈرتا- 'میں محسوس کرتا ہوں کہ جب ہم سچ نہیں بتانا چاہت تو ہم نام نہاد اپنے آپ کو ملا کے خوف ، کسی اور کے ڈر کے پیچھے چپھا لیتے ہیں- 'مجھے اپنے 'ہیرو لکھاریوں ' کو پاک ٹی ہاوس میں دیکھ کر صد مہ ہوا کہ وہ بے پیندہ، سپائن لس مخلوق بن گئے ہیں-قلم کی طاقت کو کیا ہو گیا ہے- ہم اپنی اقلیتون خاص کر عیسایوں کے ساتھ-جو سلوک کرتے ہیں اس کی وجہ سے ہم دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں'-
'یہ اقلیتیں ہم جنس پرست نہیں ہیں۔ دیکھیں ہم ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں-جہاں تک میرا تعلق ہے میں کسی سے نہیں ڈرتا-اگر میں ڈرتا ہوتا تو میں یہ کتاب 'نروان' نہ لکھتا- کسی کو سچ بتانا ہی ہوگا-اپنے ارد گرد دیکھیں کئی ہم جنس پرست معاشرہ اور خاندان کے ڈرسے شادی شدہ ہیں- وہ کسی کی بیٹی اور بہن کی زندگی تباہ کردیتے ہیں اور پھر ان کے بچے بھی اسی میں رہتے ہیں اور ایک رنجیدہ فیملی، معاشرہ کے لئے بہت سارے مسائل پیدا کردیتی ہے۔
وہ کہتا ہے کہ 'اس نے اپنی زندگی کا سنجیدگی سے جائزہ لیا اوراس اعتراف نے اس کو لکھنے میں مدد دی۔ میں نے زندگی کو زیادہ سنجید گی اور گہرائی سے دیکھنا شروع کر دیا-میں نے عورت {نسوانیت} کو اپنا لیا جس کے بغیر کوئی آرٹست مکمل نہیں ہو سکتا-' وہ اب مغرب میں مہاجروں کی زندگی کے بارے میں ایک ناول لکھ رہے ہیں-
افتی اپنے آپ کو شکاگو میں بہت مصروف رکھتا ہے جہاں وہ مستقل رہائش پذیر ہے-وہ اپنے آپ کو سنگت اور اپنا گھر کے کام میں مصروف رکھتا ہے-اس کے علاوہ وہ Open Hands Organisation جو ایڈز کے مریضوں کو کھانا، دوائیان اور رہائش مہیا کرتی ہے اور شکاگو میں Howard Brown Clinic میں مدد کرتا ہے-
وہ مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پر امید رہتا ہے' میں ہمیشہ زندگی کو انجوائے کرتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ صرف ایک زندگی ہے. میں نہیں سمجھتا کہ کیونکہ میں دوسروں سے مختلف ہوں اس لئے میں زندہ رہناچھوڑ دوں- میں Mr. Cheerful کی طرح ہوں۔ جس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی مگر وہ خوش تھا کہ اسے صرف ایک جوتا پہننا پڑتا ہے- آدمی کو اپنی طرف سے کوشش کرنی چاہئے جو وہ کرسکتا ہے اور باقی خدا پر چھوڑ دینا چاہئے- امید کو کبھی مرنے نہیں دینا چاہئے-ایک آدمی خوراک کے بغیر پندرہ دن رہ سکتا ہے، پانی کی بغیر بیس دن مگر امید کے بغیر ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتا'-