گرفتار احمدی وکیل کی نمائندگی کرنے پر ایڈووکیٹ سلمان پر عدالت میں تشدد

گرفتار احمدی وکیل کی نمائندگی کرنے پر ایڈووکیٹ سلمان پر عدالت میں تشدد
ایڈووکیٹ سلمان جے مرزا کو پیر کے روز عدالت کے احاطے میں وکلاء کی جانب سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب وہ احمدیہ کمیونٹی کے ایک 76 سالہ سینئر وکیل کی ضمانت کے لیے دلائل پیش کر رہے تھے جنہیں اپنے نام کے ساتھ 'سید' استعمال کرنے پر مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا گیا تھا۔

ایڈووکیٹ سلمان کو  وکیلوں کے ایک گروپ کی جانب سے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایڈووکیٹ سلمان شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ سلمان مرزا کے پورے جسم بالخصوص ان کے چہرے پر شدید چوٹیں آئیں۔

وکلاء کی جانب سے اس قسم کی غنڈہ گردی ایک بڑی تشویش حرکت ہے جس پر بار اور بنچوں کی طرف سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

27 اپریل کو احمدیہ کمیونٹی کے ایک سینئر وکیل کو کراچی میں ایک اور وکیل کی شکایت پر اپنے نام کے ساتھ "سید" استعمال کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے وکیل سید علی احمد طارق کو سٹی کورٹ پولیس اسٹیشن میں گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) نمبر 54/23 درج کی گئی۔

کراچی کے تھانہ سٹی کورٹ میں ایک احمدی وکیل سید علی احمد طارق کے خلاف اس وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا کیونکہ وہ اپنے نام کے ساتھ ‘سید’ لکھتے ہیں۔ تھانہ سٹی کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست میں شہری محمد احمد نے مؤقف اختیار کیا کہ چند روز قبل انہوں نے جمشید کوارٹر تھانے میں 6 احمدی افراد کے خلاف تعزیرات پاکستان کی شق 298 بی کے تحت مقدمہ درج کروایا تھا۔ ان افراد کی جانب سے عدالت میں سید علی احمد طارق بطور وکیل پیش ہوئے اور وہ بھی قادیانی ہیں مگر نام کے ساتھ ‘سید’ لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ احمدی وکیل نے عدالت میں جمع کروائے گئے کاغذات میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی لکھ رکھا ہے۔ یہ دونوں باتیں شعائر اسلام کے خلاف ہیں۔

یہ دونوں شعائر اسلام ہیں جبکہ احمدی حضرات کو ایسا کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں جو شعائر اسلام سے مماثلت رکھتا ہو۔

درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ پاکستان کے آئین اور تعزیرات کے تحت احمدی کمیونٹی اسلامی شعائر استعمال نہیں کرسکتی۔ اس لیے ایسا کرنے پر انہیں قانون کے تحت سزا دی جائے۔

آئین پاکستان میں 1974 میں کی جانے والی ایک ترمیم کے تحت آئین کی شق 260 (3) کے تحت قادیانی اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔

اسی طرح پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298 سی کے تحت بھی قادیانی/احمدی گروپ خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتے اور نہ ہی اپنا مذہب اسلام ظاہر کرسکتے۔

گزشتہ برس نومبر میں بھی اسی وکیل کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر اپنے نام کے ساتھ ’سید‘ لکھنے کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سال 2023 کے دوران اب تک صوبہ سندھ میں انتہا پسند عناصر کی جانب سے 6 مختلف احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے کیے جا چکے ہیں۔

4 مئی کو 150 نامعلوم شرپسندوں نے میرپور خاص کے علاقے ڈھولن آباد میں کرجماعت احمدیہ کی عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ کی اور عمارت کو آگ لگا دی۔

4 فروری کو نامعلوم افراد نے سیٹلائٹ ٹاؤن، میرپور خاص میں احمدیوں کی عبادت گاہ پر اس وقت فائرنگ کی، جب احمدی اندر موجود تھے۔

ضلع عمرکوٹ کے علاقے نور نگر میں 3 فروری 2023 کی رات چند نامعلوم شر پسند دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور پیٹرول چھڑک کرجماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کو آگ لگا دی، جس سے عبادت گاہ کے ہال میں موجود تمام صفیں اور کرسیاں وغیرہ جل گئیں۔

جمعرات 2 فروری سہ پہر تقریباً ساڑھے تین بجے احمدیہ ہال صدر کراچی کے مینار شر پسند عناصر نے مسمار کر دیے۔ تفصیلات کے مطابق پانچ سے دس شرپسند آئے اور چار افراد احمدیہ ہال کے باہر موجود کھانے کے ٹھیلے والے کے بنج کو دروازے کے ساتھ کھڑا کر کے اس کے سہارے دیوار کے اوپر چڑھ گئے اور ہتھوڑوں سے مینار توڑ دیے، نیچے کھڑے ہوئے دیگر شرپسندوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگائے۔

21 جنوری 2023 کو ضلع سیالکوٹ کے چک پیرو میں ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں‏ ایک 75 سالہ احمدی خاتون وفات پا گئیں تو مقامی مشترکہ قبرستان میں ان کی تدفین میں رکاوٹ کھڑی کر دی گئی۔ اس واقعے میں بھی پولیس نے حسب روایت احمدیوں کو مجبور کیا کہ میت کہیں اور لے جا کر دفن کر دیں۔ جس پر اس خاتون کی تدفین 250 کلومیٹر دور واقع ربوہ کے قبرستان میں جا کر کرنا پڑی۔

18 جنوری کو چند شرپسند افراد مارٹن روڈ کراچی پر واقع جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ میں سیڑھی لگا کر داخل ہو گئے اور انہوں نے سامنے کے دو میناروں کو نقصان پہنچایا۔

دسمبر 2022 میں گوجرانوالہ کے علاقے باغبانپورہ میں احمدی عبادت گاہ کے دو مینار مسمارکر دیے گئے تھے۔ اس واقعے پر احمدی کمیونٹی کے افراد نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے اپنی زیر نگرانی یہ کام کروایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اہلکار بھی ان شرپسند عناصر کا ساتھ دیتے ہیں۔

21 جنوری 2023 کو ضلع سیالکوٹ کے چک پیرو میں ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں‏ ایک 75 سالہ احمدی خاتون وفات پا گئیں تو مقامی مشترکہ قبرستان میں ان کی تدفین میں رکاوٹ کھڑی کر دی گئی۔ اس واقعے میں بھی پولیس نے حسب روایت احمدیوں کو مجبور کیا کہ میت کہیں اور لے جا کر دفن کر دیں۔ جس پر اس خاتون کی تدفین 250 کلومیٹر دور واقع ربوہ کے قبرستان میں جا کر کرنا پڑی۔

اسی طرح اپریل 2022 میں مظفر گڑھ کے علاقے چوک سرور میں مشتعل ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں احمدی عبادت گاہ کے مینار اور محراب مسمار کر دیے تھے اور پولیس تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔

2019 میں سیالکوٹ کے چھتی بازار میں واقع احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہ کو مسمار کیا گیا تھا۔ تحریک لبیک اور دیگر مذہبی تنظیموں نے مل کر عبادت گاہ کو مسمار کیا تھا۔

جماعت احمدیہ کے قبرستانوں اور عبادت گاہوں کو مسلسل نقصان پہنچائے جانے کے واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے اور اس معاملے پر ریاست کی خاموشی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔