Get Alerts

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، کیا ڈالر کی اونچی اُڑان پاکستانی عوام کو زیادہ متاثر کررہی ہے؟

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، کیا ڈالر کی اونچی اُڑان پاکستانی عوام کو زیادہ متاثر کررہی ہے؟
اسلام آباد: حکومت نے بجلی اور گھی کی قیمتیں بڑھانے کے بعد عوام پر پیٹرول بم گرادیا اور ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس سے ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان کھڑا ہوگا۔

وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 10 روپے 49 پیسے بڑھا دی گئی ہے جس کے بعد ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 137روپے79 پیسے ہوگئی ہے۔ مٹی کا تیل 10روپے 95 پیسے مہنگا کیا گیا ہے جس کے بعد ایک لیٹر مٹی کا تیل 110روپے 26 پیسے کا ہوگیا ہے۔

ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 12روپے 44 پیسے اضافہ کیا گیا ہے اور نئی ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 134 روپے 48 پیسے ہوگئی ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تقریباً 85 ڈالر فی بیرل ہو گئیں ہیں جو اکتوبر 2018 کے بعد سے ریکارڈ قیمت ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پیدا ہونے والے دباؤ کا سامنا کیا اور صارفین کے لیے زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے رپورٹ کے مطابق اس مسلسل اضافے کے پیچھے نہ صرف روایتی عوامل شامل ہیں، جیسا کہ اوپیک ممالک کی کارکردگی وغیرہ یا پھر مشترکہ عوامل جیسا کہ کووڈ 19۔ اس کے علاوہ اس میں تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کی ایک پوری نئی حکمت عملی بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق طلب کے حوالے سے ہم کورونا کے اثرات کے بعد معیشت اور نقل و حرکت کو دوبارہ فعال ہوتا دیکھ رہے ہیں، اس لیے تیل کی طلب میں پچھلے سال ریکارڈ کمی کے تجربے کے بعد ہو سکتا ہے کہ ہم اس سال شاید سب سے زیادہ اضافہ دیکھیں۔ اوپیک، روس اور دیگر تیل برآمد کرنے والے ممالک نے آہستہ آہستہ رسد بڑھانے کا معاہدہ کیا ہوا ہے تاکہ وہ سنہ 2020 کی پیداوار میں کمی کی صورتِ حال کو مکمل طور پر قابو کر سکیں جو وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔

تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد یکم ستمبر 2018 کو پیٹرول کی قیمت 92 روپے 83 پیسے اور ڈیزل کی قیمت 106 روپے 57 پیسے فی لیٹر تھی۔ اب پیٹرول کی نئی قیمت 137 روپے 79پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت میں پیٹرول کی قیمت میں اب تک 41روپے فی لیٹر اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈیزل کی قیمت اب تک تقریبا 26روپے فی لیٹر بڑھ چکی ہے۔ مسلم لیگ ن جون 2013 میں اقتدار میں آئی تو پیٹرول کی قیمت 100 روپے 63 پیسے فی لیٹر تھی اور ڈیزل 105 روپے 50 پیسے فی لیٹر میں دستیاب تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے پر یکم جون 2018 کو پیٹرول کی قیمت 87 روپے 70 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 98 روپے 76 پیسے فی لیٹر تھی۔

ن لیگ کے دور میں پیٹرول کی قیمت میں مجموعی طور پر12 روپے 93 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 6 روپے 74 پیسے کی کمی ہوئی۔

پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو یکم اپریل 2008 کو پیٹرول کی قیمت 65 روپے 81 پیسے فی لیٹر تھی اور ایک لیٹر ڈیزل 47 روپے 13 پیسے میں دستیاب تھا۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار کے خاتمے پر یکم اپریل 2013 کو پیٹرول کی قیمت 102 روپے 30 پیسے اور ڈیزل کی 108 روپے 59 پیسے فی لیٹر تھی۔ اس کے دور میں پیٹرول کی قیمت میں مجموعی طور پر 36 روپے 49 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 61 روپے 46 پیسے فی لیٹر اضافہ ہوا۔

تفصیلات کے مطابق جون،جولائی،اگست 2014، پاکستان میں پیٹرول 107.97روپے فی لیٹر جبکہ عالمی منڈی میں برینٹ کروڈ آئل 112ڈالر فی بیرل جبکہ اکتوبر2021 پاکستان میں پیٹرول 137.79روپے فی لیٹر جبکہ عالمی منڈی میں برینٹ کروڈ آئل کی قیمت 84.70روپے فی بیرل ہے اور ماہرین کے مطابق پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ڈالر کی قیمتوں کا اُڑان ہے اور ڈالر اج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کرہا ہے اور عوام سمیت حکمران جماعت کے اپنے ورکرز اور حامی حکومت کے فیصلے پر تنقید کررہی ہے۔

معیشت پر نظر رکھنے والے نوجوان ماہر سجاد احمد سمجھتے ہیں کہ دنیا میں پہلے بھی برینٹ کروڈ آئل کی قیمتیں بڑھی ہے لیکن پاکستان پر اس کا اتنا اثر نہیں رہا کیونکہ ملک میں ڈالر کی قیمتیں مستحکم تھیں۔ سجاد کے مطابق اگر پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی مد میں نظر ڈالی جائے توحکومت ماضی کے مقابلے میں کم ترین ٹیکس لے رہی ہے مگر موجودہ حکومت کی ناکامی یہی ہے کہ وہ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول نہیں کرپارہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ بین القوامی مارکیٹ میں فی بیرل قیمت 112 ڈالر تک گئی تھی لیکن پاکستان میں قیمتیں مستحکم رہی کے جواب میں سجاد احمد نے کہا کہ جب بین القوامی مارکیٹ میں فی بیرل 112 ڈالر پر پہنچی تھی اس وقت پاکستان میں ڈالر کی قیمت 105 تھی اس وجہ سے قیمتوں پر فرق نہیں پڑا۔

سجاد احمد کے مطابق بین القوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کی دوسری بنیادی وجہ کورونا وائرس کے اثرات بھی ہیں کیونکہ جب کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لیا تو اس وقت بین القوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر آئی اور سپلائی اور پیداوار بھی متاثر ہوئی لیکن جیسے ہی معیشت دوبارہ اپنے سمت میں آرہی ہے تو طلب میں تیزی بڑھ رہی ہے اور قیمتیں بڑھ رہی ہے۔ سجاد احمد کے مطابق اوپیک اور دیگر تیل برآمد کرنے والے ممالک نے آہستہ آہستہ رسد بڑھانے کا معاہدہ کیا ہوا ہے تاکہ وہ سنہ 2020 کی پیداوار میں کمی کی صورتِ حال کو مکمل طور پر قابو کر سکیں جو وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ سجاد احمد کے مطابق دنیا کی بہت ساری بین القوامی کمپنیاں اب تیل میں سرمایہ کاری نہیں کررہیں اور اس کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے اور یہی وہ وجوہات ہے جن کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہے۔ سجاد احمد کے مطابق آئندہ آنے والا سال پاکستانی معیشت کے لئے بہت مشکل ہے اور نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی مزید بڑھے گی۔

دوسری جانب مختلف سیاسی پارٹیوں نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کی حکومتی فیصلے پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت اب ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے اور حکومت کو گھر جانا چاہئے۔ ن لیگ کے راناثنا اللہ نے کہا کہ اب وقت ہے کہ پاکستانی عوام اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرکے اس حکومت کو گھر بھیجیں۔ مریم نواز ، بلاول بھٹو سمیت عوامی نیشنل پارٹی ک نےپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کی زندگی مزید اجیرن ہوجائے گی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔