سوات پھر سے طالبان کے قبضے میں جا رہا ہے

سوات پھر سے طالبان کے قبضے میں جا رہا ہے
نعمت خان (فرضی نام) کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ یہ سال 2008 کی بات ہے جب قبائلی اضلاع کے بعد سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر علاقوں میں حالات کشیدہ ہورہے تھے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مسلح دستے سوات کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ یہ سوات پر ایک مشکل وقت تھا۔ ہم اس ملک کی خاطر امن کمیٹیوں کا حصہ بنے اور اپنی سرزمین کا دفاع کیا۔ لیکن میری نظر میں ہم نے تاریخی غلطی کی کیونکہ ہمارے درجنوں کارکنوں کو چن چن کر مارا گیا اور بدلے میں ہمیں سوائے چند لاکھ روپوں کے کچھ نہیں ملا۔ ہم پر حملے ہوئے اور ہمارے خاندان کے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ لیکن سوات میں امن قائم ہوا تو ہم نے تمام قربانیاں بھلا دیں کہ چلو ہماری قربانیوں سے امن تو قائم ہو گیا ہے۔

لیکن آج ایک بار پھر ہم اپنے گھروں میں محصور ہو چکے ہیں کیونکہ سوات پر ایک بار پھر عسکریت پسند جتھوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی دن ہماری لاش بھی کسی گلی، کسی کھیت یا کسی پہاڑ سے برآمد ہوگی اور ہمارے خاندان والوں کو ایک بار پھر کیمپوں میں مہاجروں کی طرح رہنا پڑے گا۔

یہ کہانی سوات میں امن کمیٹی کے رضا کار نعمت خان کی ہے جو سوات میں امن و امان کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر اپنے گھر میں محصور ہو کے رہ گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں 2008 اور 2009 میں طالبان کے قبضے کے بعد سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر ملٹری آپریشن کیا تھا جس کے بعد سوات میں امن قائم ہو گیا۔ بس کچھ جگہوں پہ چیدہ چیدہ واقعات بعد میں بھی ہوتے رہے۔

سکیورٹی امور کے ماہرین کے مطابق تحریک طالبان پاکستان اور ریاست پاکستان کے درمیان مذاکرات کے بعد سوات میں ایک بار پھر مسلح لوگوں کی واپسی ہو رہی ہے اور اب یہ نہیں معلوم کہ یہ واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے یا تحریک طالبان پاکستان کی کسی نئی سٹریٹجی کا حصہ ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل کبل کے علاقہ کوٹکے برہ بانڈئی میں گزشتہ روز بم دھماکے میں امن کمیٹی کے رکن ادریس خان اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہو گئے تھے اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے علاوہ گزشتہ روز سوات ہی میں امن کمیٹی کے ایک رضا کار کو قتل کیا گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کچھ روز قبل ایک پالیسی بیان میں کہا تھا کہ سوات میں طالبان کی مسلح واپسی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں جبکہ فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے سوات میں طالبان کی واپسی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

نعمت خان کہتے ہیں کہ جو لوگ ایسے بیانات دے رہے ہیں، وہ سوات کے حالات سے واقف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں درجنوں کی تعداد میں مسلح لوگ گشت کر رہے ہیں، ہماری زندگیاں گھروں کے اندر محصور ہو چکی ہیں اور ہر طرف ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا جارہا ہے مگر ریاست نام کی کوئی چیز یہاں کسی طرف نظر نہیں آ رہی۔ فوج سے جب ہماری بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اب تمام انتظامی امور ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے پاس ہیں اور جب ہمیں ذمہ داری دی جائے گی پھر ہم امن و امان کی صورتحال ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔

نعمت خان کہتے ہیں کہ پوری رات ہم گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر پہرہ دیتے ہیں اور دن بھی اسی خوف میں گزرتا ہے کہ کوئی گھر میں بم پھینک کر ہمیں قتل نہ کر دے۔

واضح رہے کہ قبائلی اضلاع سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے ہیں اور سیاسی کارکنوں سمیت امن کمیٹیوں کے رضا کاروں، سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور دیگر افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔