کتنے تعجب کی بات ہے جب کوئی ہاتھ میں آئس کریم تھامے یہ کہے کہ آج کچھ ٹھنڈا کھانے کو مل جائے تو مزہ آ جائے یا یوں کہہ لیجئے کہ ایک شخص خود ہوائی کمپنی کا مالک ہو اور کسی کے شکوہ کرنے پر کہے کہ اگر میرے پاس وہاں پہنچنے کی سواری ہوتی تو میں لازمی آتا۔
یہ حالات اس وقت پاکستان میں برسر اقتدار حکمراں جماعت تحریک انصاف کے ہیں، جن کے مشیران اور وزرا سے تو کیا ہی توقع رکھنا، ملک کے وزیراعظم تک کو یہ کہتے کئی بار سنا جا چکا ہے کہ اگر یوں نہ ہوتا تو اچھا ہوتا اور اگر یوں ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے۔ اس سب سے بھی چار قدم آگے یہ بیاں بھی داغا جا چکا کہ میں نے جلسوں کا اعلان کر دیا تو مافیا کو لگ پتا جائے گا۔
سوال جائز ہے جو عوام پوچھنا چاہتی ہے کہ یہ سب شکایات اگر برسر اقتدار افراد نے کرنی ہیں تو حکومت کا اختیار اور ملک کو صحیح سمت میں لے جانے کی ذمہ داری آخر کس کی ہے؟
حال ہی میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے عدلیہ پر سوالات اٹھائے اور عدالتی نظام کو بہتر کرنے کی بات کی۔ اسی روز اخبارات اور نیوز ویب سائٹس پر ایک خبر یہ بھی دیکھنے کو ملی کے پابند سلاسل ایک کینسر کے مریض قیدی کی تاریخ دو سال سے نہیں آئی اور غالباً وہ انتقال کر گیا۔
پارلیمنٹ میں بیٹھے حکومتی وزرا جو لاکھوں تنخواہ اور مراعات قانون سازی اور نظام کی بہتری کے عوض لیتے ہیں، اس کے باوجود نظام کو ٹھیک کرنے کی بجائے بیان دینا کیا ان کی تنخواہوں پر حرام کا فتویٰ لگانے کے لئے کافی نہیں ہے؟
کیا اسلامی نظریاتی کانسل کو اس حوالے بھی حکومت کو انتباہ نہیں کرنا چاہیے کہ آیا حکومت چلاتے وقت کیا ذمہ داری ہے اور اگر وہ پوری نہ کی جائے تو ریاست کی تنخواہ کھانا حرام اور شرعی طور پر ناجائز ہے؟
ابھی حال ہی میں وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری صاحب نے وزیراعظم کو ایک خط لکھ کر یہ کہا ہے کہ عورت مارچ پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ یہ اسلامی شعائر کے خلاف ہے۔ اب عورت مارچ اس کے مقاصد اسلام کے خلاف ہیں یا نہیں اسے تو بعد میں زیر بحث لائیں گے، مگر سوال یہ ہے کہ نور الحق قادری صاحب چار سال سے جس حکومت میں بیٹھے تنخواہیں کھا رہے ہیں وہ حکومت اور وزرا کارکردگی، آئین کی پاسداری اور حلف کے مطابق کتنے صادق اور امین ہیں؟ ان کی کابینہ میں رہنا اور غریب عوام کی ہڈیوں سے نچوڑی گئی محنت کے پیسوں (ٹیکس) کی تنخواہیں اور مراعات کتنی اسلامی شعائر کے مطابق ہیں؟
پاکستان میں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بھی حکومت یا آمریت قابض ہو تو پارلیمنٹ میں کبھی بھی عوام کی نمائندگی کرنے والی اپوزیشن موجود نہیں رہی بلکہ ہمیشہ سازشی عناصر اور جی حضوری میں بازی لے جانے والوں کا مقابلہ ہی چلتا رہا ہے جو کہ اس وقت بھی زوروں سے جاری ہے۔
جہاں حکومت خود اختیارات کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے وہیں اپوزیشن ملک کو آمریت کی جانب جاتا دیکھنے کے بیانات داغ کر عوام سمیت مقتدر حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں مصروف ہے۔
ماضی کے تمام نظاموں کو اپوزیشن اور حکومت نے بانٹ لیا ہے۔ حکومت کے حق اور ان کی چاپلوسی والے تجزیہ کار اور ایکٹویسٹ صدارتی نظام کے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں تو وہیں اپوزیشن سے محبت میں گرفتار افراد عدم اعتماد کی تحریک کے فوائد اور اس پر ڈھول بجاتے نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں صحافی محسن بیگ کی گرفتاری بھی ایک بے تکی سی بات کا شاخسانہ اور حکومتی صفوں میں تذبذب کا شکار ہونے کی جانب نشاندہی کرتی ہے۔ یعنی صرف اس بات پر غور کیجئے کہ مثال کے طور پر ایک شخص مجمعے کے سامنے دوسرے شخص کو گالیاں نکالے اور کوئی تیسرا وہی بات مجمعے کو بتائے کہ فلاں نے فلاں کو یوں کہا، اب گالیاں کھانے والا شخص گالیاں دینے والے کی بجائے بتانے والے سے خفا ہو جائے تو عقل بے چین تو ہوگی کہ یا تو اصل میں گالیاں دینے والے کے خلاف کارروائی اس لئے نہ کی کیونکہ اس نے سچ کہا یا اس لئے نہ کی کے کہیں مزید راز نہ افشا ہو جائیں۔
قصہ مختصر یہ کے اختیار کی جنگ میں تمام افراد اور ادارے بے اختیار ایک دوسرے پر چڑھائی کئے جا رہے ہیں۔ ملک اور عوام کو بے روز گاری، مہنگائی، لاقانونیت کی آگ میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ اب تک تو اس بات جواب ممکن نہیں ہو پا رہا کہ اس شطرنج کی بازی میں عوام ہار رہی ہے اپوزیشن یا حکومت ہار رہی ہے یا ملک پاکستان ہی کا کوئی والی وارث نہیں رہا؟
عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@