'غلامی نامنظور': ARY کی سچ، جھوٹ کی قید سے آزاد رپورٹنگ

'غلامی نامنظور': ARY کی سچ، جھوٹ کی قید سے آزاد رپورٹنگ
'غلامی نامنظور'۔ یہ ہے وہ نعرہ جو آج کل پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان آپ کو کچھ عرصہ قبل تک جلسوں میں لگاتے نظر آتے تھے اور اب جب کہ جلسے کر کر کے خان صاحب یا تو تھک گئے ہیں یا پھر پیسے ختم ہو گئے ہیں تو سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر کی جگہ یہ نعرہ اور ہر ٹوئیٹ کے ساتھ کارکنان یہ ہیش ٹیگ استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ نعرہ تو یقیناً خوش کن ہے لیکن جماعت اس کو 'مادر پدر غلامی نامنظور' کی سطح پر لے گئی ہے کہ جس میں جھوٹ، سچ کی بھی کوئی قید نہیں، صحیح، غلط آپ کچھ بھی کہتے رہیں، سب کچھ ٹھیک ہے۔ اور حمایتی و کارکنان ایسے غلامی قبول کر بیٹھے ہیں جیسے ایمان لانے کا حق ہوتا ہے۔

اس سوچ کا سب سے بڑا داعی پاکستان میں اس وقت ایک نیوز چینل ہے جس پر عمران خان کے دور میں ٹیکس چھوٹ، کرکٹ دکھانے کے حقوق غیر قانونی طور پر حاصل کرنے سمیت درجنوں سنگین الزامات ہیں۔ یہ چینل کچھ بھی چھاپ سکتا ہے اور کارکنان 'غلامی نامنظور' کے جذبے سے سرشار جوق در جوق اس جھوٹ، سچ کو حسبِ توفیق جتنا پھیلا سکتے ہیں پھیلانے کی لگن میں غلطاں ہو جاتے ہیں۔ اس نیوز چینل نے جمعرات کی شام یہ اعلان فرما دیا کہ وفاقی وزیرِ خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش پر سرکاری خزانے سے 48 لاکھ روپے کے اخراجات کیے گئے ہیں۔ اس خبر پر مفتاح اسماعیل کے ردِ عمل پر تو بعد میں آتے ہیں، پہلے یہ یاد رکھیں کہ ARY کے مالک سلمان اقبال ہی تھے جو کبھی کسی کے ایک اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے تھے، ٹی شرٹس پیش کیا کرتے تھے۔ آج کل ان کے اینکر کہتے ہیں ان کی جانوں کو خطرہ ہے۔ کچھ تو اسی خطرے کے پیشِ نظر ملک سے باہر تشریف لے گئے ہیں۔ انہیں اور ان کے چینل کو یہ یاد کروانا ضروری ہے کہ ماضی میں جن صحافیوں کی جان کو خطرہ ہوتا تھا، یہ چینل ان کی جان کو مزید خطرے میں ڈالتا رہا ہے۔ کئی کی جانوں کو تو اس چینل کی نظر پڑنے تک کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اللہ صابر شاکر اور ARY کے دیگر ساتھیوں سمیت سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے لیکن کیا وہ اپنی پرانی روش کو مکمل طور پر چھوڑ چکے ہیں یا یہ 'سویلین بالادستی' کا ابال محض وقتی ہی ہے؟ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

بہرحال مفتاح اسماعیل پر الزام لگایا گیا کہ وہ اسلام آباد میں اپنے گھر سے منسٹر انکلیو منتقل ہو چکے ہیں۔ شاہ خرچیاں کرتے ہوئے انہوں نے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش پر سرکاری خزانے سے 48 لاکھ روپے بھی خرچ کر دیے ہیں اور یہ سب کچھ ان کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی ہو چکا ہے۔

مفتاح اسماعیل نے اس کا جواب دیا کہ وہ اسلام آباد کے علاقے F7 میں رہتے ہیں جہاں ان کا گھر ہے۔ منسٹرز انکلیو میں انہیں ایک گھر تفویض کیا گیا ہے لیکن نہ تو یہ وہاں گئے ہیں اور نہ ہی اس میں رہائش اختیار کرنے کا ان کا ارادہ ہے۔ اس گھر پر ایک پائی بھی خرچ نہیں کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے سرکار سے کوئی گاڑی لی ہے، نہ تنخواہ لیتے ہیں، نہ ہی پٹرول۔

اب اے آر وائے کے سامنے یہ تمام حقائق رکھے جا چکے ہیں۔ لیکن وہ غلامی کو نامنظور کر چکے ہیں۔ کوئی کتنی ہی صفائیاں پیش کرتا پھرے، وہ اب ایسی دنیاوی علتوں سے پاک ایک علیحدہ جہان کی طرف سدھار چکے ہیں جہاں سے انہیں حقیقی رپورٹنگ اور جس شخص کے خلاف رپورٹ دی جا رہی ہے اس کا مؤقف لینے جیسی بلاوجہ کی مصیبت اپنے گلے ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ آزاد ہیں۔ بیورو چیف اسلام آباد خاور گھمن صاحب کی یہ خبر تھی۔ وہ دیگر معاملات پر ٹوئیٹس فرما رہے ہیں۔ تردید کے خوف سے بھی بے نیاز، مکمل آزاد ہو کر۔

کچھ ایسی ہی آزادی چند روز قبل دیکھنے میں آئی تھی جب وزیر اعظم شہباز شریف پر اس وقت کے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے الزام لگایا کہ انہوں نے سات کروڑ روپے سے وزیر اعظم ہاؤس کا سوئمنگ پول مرمت کروایا ہے۔ اے آر وائے نے ایک اپوزیشن جماعت کے سیاستدان کا الزام اپنی رپورٹ کے طور پر پیش کیا گویا آسمانی صحیفہ ہو اور اس کی تبلیغ و ترویج کا انہیں 'امر بالمعروف' کے تئیں حکم ملا ہو۔ تنقید ہوئی تو چینل نے ٹوئیٹ بھی ڈیلیٹ کر دی اور خبر بھی۔

اب کوئی یہ برطانیہ ہوتا تو معافی بھی مانگتے، جرمانے بھی بھرتے، کئی کئی بار ٹی وی چینل پر چلاتے کہ ہم نے غلط رپورٹنگ کی تھی، جیسے گل بخاری کے بارے میں جھوٹ بولنے پر کیا، جیسے ایک عام شہری کو بھارتی ایجنٹ قرار دینے پر کیا، جیسے ن لیگی ورکر ناصر بٹ کے بارے میں جھوٹ بولنے پر کیا، جیسے اسحاق ڈار کے بارے میں جھوٹ بولنے پر کیا، جیسے ریحام خان کے بارے میں جھوٹ بولنے پر کیا۔ لیکن یہ پاکستان ہے۔ اور ہم آزاد ہیں۔ 74 سال سے جو غلامی کی زنجیریں ہمیں مجبور کرتی آئی تھیں، 75ویں سال میں ہم نے توڑ ڈالی ہیں، اب ہم جو جی میں آئے رپورٹنگ کر سکتے ہیں، بے بنیاد اطلاعات سوشل میڈیا اور ویب سائٹ کے ذریعے پھیلا سکتے ہیں، ہمیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ جو جماعت ہمارے مفادات کا خیال رکھے گی، ہم اس کے مفادات کا خیال رکھنے میں آزاد ہیں۔ 'غلامی نامنظور'۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.