ہمارا مایوس اور ناراض طبقہ ہمیں ایک دن کھا جائے گا۔ ان کے مسائل کو حل کیجیے

ہمارا مایوس اور ناراض طبقہ ہمیں ایک دن کھا جائے گا۔ ان کے مسائل کو حل کیجیے
ہماری بدقسمتی ہے کہ آزادی حاصل کیے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ہم ذات پات اور اونچ نیچ کے مصنوعی خول سے باہر نہیں نکل سکے۔ تعلیم، صحت یا کوئی بھی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ امیر غریب اور چھوٹے بڑے کے درمیان واضح فصیل دکھائی دیتی ہے۔ صاحب حیثیت علاج اور تعلیم کی بہترین سہولتوں سے مستفید ہو رہا ہے جبکہ غریب کے لئے فقط طفل تسلیاں، وعدے وعید اور روشن مستقبل کی آس اور امیدیں ہیں۔ بڑے لوگ قومی خزانے پر نقب لگا کر اورقتل کر کے بھی جیل میں اے اور بی کلاس کے مزے لوٹتے ہیں جبکہ بیچارا غریب معمولی جرم کر کے بھی عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے کیا خوب کہا کہ؛

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل  بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

کہنے کو تو ہم آزادی حاصل کر چکے ہیں مگر عملی طور پر ابھی تک ذات پات اور برادریوں ميں بٹے ہوئے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم چوہدری، راجہ، اعوان، سدھن وغیرہ کے خول سے باہر نہیں نکل سکے۔ شہروں کی نسبت دیہاتوں میں اس کا عکس نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں برادری ازم کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ ان کے حصار کو توڑنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے گاؤں اور دیہاتوں ميں تعصب اور برادری ازم کا گھٹن زدہ ماحول پایا جاتا ہے۔ برادری کی بنیاد پر ظلم وستم اور زیادتی کے لاتعداد واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ بااثر اور اکثریت برادری کے ہاتھوں مختاراں مائی کے گینگ ریپ جیسے کئی واقعات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہيں۔

https://www.youtube.com/watch?v=t4E92ra2m9s

ہمارا برادری ازم کا نظام اتنا طاقتور ہے کہ مجال ہے جو کسی اکثریتی برادری کے علاقے سے کوئی اقلیتی برادی والا الیکشن جیت پائے۔ اہل اور قابل ہونے کے باوجود نوکری حاصل کرنے کے لئے آپ کا اکثریتی برادری سے ہی ہونا لازم ہے۔ اور اگر آپ اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں تو جان لیں کہ میرٹ اور تمام قواعد و ضوابط بنے ہی آپ کے لئے ہیں۔ برادری سے باہر شادی بیاہ کا تصور کرنا بھی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔

وطن عزیز کی طرف دیکھیں۔ یہاں انسان اور انسانیت کے بے وقعت ہونے کا احساس شدید سے شدید تر ہو جاتا ہے۔ رنگ، نسل، برادری، مذہب اور مالی حیثیت کو انسانیت پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اخبارات کے صفحات انسان اور انسانیت کی تذلیل کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ انصاف بھی سب کے لئے  برابر نہیں۔

اشرافیہ کا طبقہ ٹیکس چوری اور کرپشن کرنے کے باوجود تمام سہولیات سے فیضیاب ہو رہا ہے جبکہ غریب بیچارا اپنی خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس کٹوا کر بھی آس، امید اور بے بسی کی تصویر بنا رہتا ہے۔ بڑے محلات اور عالی شان گھر چوری کی بجلی یا بلوں کی عدم ادائیگی کے باوجود رات میں بھی دن کا سماں پیش کرتے ہیں جبکہ عوام اضافی بل بھرنے کے باوجود بھی موم بتیوں اور لالٹینوں کے بل بوتے پر راتيں گزار رہا ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اغیار کی برائیوں سے تو فوراّ متاثر ہو جاتے ہیں مگر ان کی خوبیوں اور اچھائیوں پر آنکھیں موند لیتے ہیں۔ ہم نہ تو ترقی یافتہ ممالک اور نہ ہی دین اسلام کے معاشرتی نظام کو اپنا سکے۔

https://www.youtube.com/watch?v=x1JDo68rde0&t=26s

ہماری اشرافیہ اور حکمرانوں کا طبقہ خواہ اپنے محلات کے اندر ہو یا باہر ہر حال میں بیچاری غریب، مجبور اور بے بس عوام کے لئے باعث عذاب و مشکلات ہی ثابت ہوا ہے۔ بدقسمتی سے عوام کے خون کو نچوڑ کر حاصل کیے گئے ٹیکس کا پیسہ عوام کو بنیادی سہولتيں فراہم کرنے کے بجائے اشرافیہ اور حکمرانوں کے شاہانہ رہن سہن، پروٹوکول اور عیاشیوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ یہ طبقہ جب اپنے محلات سے باہر نکلتا ہے تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی پھرتیاں دیکھنے والی ہوتی ہيں۔ شاہانہ پروٹوکول میں شامل گاڑیوں کی تعداد بھی دیدنی ہوتی ہے اور پولیس کی زیادہ تر نفری بھی عوام کے جان و مال کی حفاظت کے بجائے شاہانہ پروٹوکول کی ڈیوٹی پر مامور رہتی ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ پروٹوکول کی زبانی کلامی مخالفت کرنے والے سیاستدان بھی پروٹوکول کے مزے لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

قارئین، سچ تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں غریب کا خون سستا اور امیر کا ارزاں ہے۔ غریب کے اس احساس کی وجہ سے جنم لينے والی ممکنہ نفرت کا سدباب کرنا بے حد ضروری ہے۔ کيوں نہیں ایسے اقدامات کیے جاتے کہ غریـب اور امیر کے جان، مال، عزت و آبرو کو مساوی تحفظ ملے اور وی آئی پی (ویری ایمپورٹنٹ پرسن) پروٹوکول کی جگہ  پی (پرسن) پروٹوکول یعنی امیر غریب کو برابر اور سب سے بڑھ کر انسانیت کو پروٹوکول حاصل ہو۔ ساتھ ہی عوام کا بھی یہ فرض ہے کہ عوامی نمائندے منتحب کرتے ہوئے امیدوار کی عوام دوستی اور پروٹوکول سے نفرت جیسے ریکارڈ اور ماضی کو بھی ذہن نشین رکھيں۔

مہنگائی کا ایک طوفان ہے۔ سیاستدانوں کی جمع تفریق سنیں سب اچھا بلکہ مثالی ہونے کا تاثر ملتا ہے جبکہ زمینی حقائق سراسر مختلف ہیں۔ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ایک کروڑ نوکریوں کا لالی پاپ محض ایک انتخابی جھانسہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر آنے والا پچھلے کو کوسنے میں لگا ہے۔ کوئی بھی مسائل کے ٹھوس اور قابل عمل حل کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ عام آدمی کا احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارا ناقص نظام ایک ایسے ناراض اور مایوس طبقے کو پروان چڑھا رہا ہے جو آگے جا کر ایک ناسور کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں