ایرک آرتھر بلئیر المعروف جارج آرویل ایک شہرہ آفاق انگریز مصنف تھا۔ اس نے 1945 میں "اینیمل فارم" کے نام سے طنزیہ سیاسی تمثیل پر مبنی ایک شاہکار تحریر کیا۔ سیاق وسباق کے لحاظ سے تو اس ناول کی کہانی 1917ء کے انقلابِ روس کی تصوراتی اور عملی حقیقت میں تفریق کو عیاں کرتی ہے مگر اس کہانی کے کردار اور واقعات محض نام اور علاقہ کی تبدیلی کے ساتھ آج کسی بھی ملک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
"بزرگ میجر" کے انتقال کے بعد "نیپولین" اور "سنوبال" نامی سور جانوروں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں "مسٹر جونز" نامی انسانی مالک کے غیض وغضب سے آزادی دلواتے ہیں اور فارم پر قبضہ کرکے اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیتے ہیں۔
انقلاب لانے کے بعد جانور یہ تہیہ کرتے ہیں کہ اب وہ انسانوں والا طبقاتی نظام تہس نہس کرکے دو نہیں ایک فارم اور جانوروں کی حقیقی شناخت کو دوبارہ اجاگر کرنے کے اصول پر برابری کا نظام لائیں گے جِس میں تمام جانوروں کے کپتان یعنی "سنوبال" اور "نیپولین" سمیت دیگر سور اور ان کے کھلاڑی یعنی گھوڑا، گدھا، مرغیاں وغیرہ سب ایک سا طرزِ زندگی گزاریں گے۔
برابری کے اس نظام کو یقینی بنانے کے لئے جانور اپنا مثالی سیاسی منشور یعنی سات احکامات لکھ کر فارم کی سب سے نمایاں جگہ پر چسپاں کر دیتے ہیں جس میں واضح کر دیا جاتا ہے کہ اب سے فارم میں سادگی اختیار کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں گے یعنی کوئی جانور کپڑے نہیں پہنے گا کہ یہ انسانوں کی برتری کے نظام کی علامت ہے، کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا کہ یہ انسانوں کی طرز پر تفریق ڈالنے کی وجہ ہے، کوئی جانور شراب نہیں پیے گا کہ انسان نشے میں غل غپاڑہ کرتے اور جانوروں کو مارا کرتے تھے اور یہ کہ تمام جانور برابر ہیں۔
تعلیم کے حصول پر بھی زور دیا جاتا رہا حتیٰ کہ انسان کی بنائی ہوئی عمارت میں جانوروں کو پڑھانے کے لئے جگہ مختص کرنے کے بھی منصوبے بنائے گئے۔ مگر جانوروں کے حکمرانوں میں اقتدار کی ہوس نے جلد ہی نفاق پیدا کر دیا۔
"سنوبال" جو اصول پرست رہنما تھا، طاقت کے نشے میں دھت "نیپولین" کو کھٹکنے لگا۔ سنوبال نیپولین کو سمجھاتا کہ جانوروں کو تعلیم کی ضرورت ہے، فارم پر ترقیاتی منصوبوں سے جانوروں کی معاشی بہتری کے اقدامات کرنے ضروری ہیں۔ سابق مالک مسٹر جونز کے خطرے سے مستقل چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے خود کو ہر لحاظ سے مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
مگر نیپولین کی خود سر اور انتقام پسند فطرت نے اسے سنوبال کی اصولی باتوں سے متنفر کر دیا۔ نیپولین کی شان میں قصیدے پڑھنے والے مفاد پرست مصاحبین اسے سب اچھا ہے کی داستانیں سناتے رہے اور آہستہ آہستہ سنوبال کے لئے جبری ملک بدری کے حالات پیدا کر کے اسے جان بچا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔
اب جانوروں کا فارم ایک نیا فارم بن چکا تھا جس میں نیپولین کے مصاحب ہر ممکن قدم اٹھاتے کہ نیپولین کی جی حضوری کی جائے، جانوروں میں نیپولین کی بہادری کے من گھڑت قصے عام کیے جائیں، سنوبال اور مسٹر جونز کو مستقل خطرہ قرار دے کر ہر مخالف آواز کو ان کی شہہ پر غداری سے تعبیر کیا جانے لگا اور کسی بھی قسم کی غیر معمولی ہلچل کو یہ کہہ کر دبا دیا جانے لگا کہ جانوروں کے فارم میں عدم استحکام کی صورت میں سنوبال اور سابق مالک مسٹر جونز کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے گا لہٰذا سب جانور دبک کر بیٹھ جاتے۔ اب نیپولین کو اپنے مخصوص حلقہ احباب کے جھرمٹ میں حسبِ منشا اقتدار کا نشہ پورا کرنے کا موقع مل چکا تھا۔
ہر مخالف آواز کو سنوبال کے ساتھ غداری کے الزام میں دبا دیا گیا تھا اور فارم کے سات اصول جن کی بنیاد برابری پر تھی انہیں تبدیل کر دیا گیا۔ اپنی حکمرانی کو جانوروں کی فلاح کے لئے عرق ریز، اہم اور حساس کام قرار دے کر نیپولین نے اپنے قریبی جانوروں کے ساتھ دیگر جانوروں سے فاصلہ اختیار کر لیا اور سابقہ انسان حکمران مسٹر جونز کے بنائےاسی گھر میں رہنے لگا جس کو ختم کرنے کا نعرہ لگا کر یہ انقلاب لائے تھے۔
تمام جانوروں کو سادگی کے نام پر کپڑے نہ پہننے کا قانون سکھانے والے نیپولین اور اس کے قریبی دوست انسانوں کے بنائے قیمتی کپڑے پہن کر سادگی کے اپنے ہی اصول کا مذاق بنانے لگے۔ طبقاتی تقسیم ختم کرکے تمام جانوروں میں گھل مل کر رہنے کا نعرہ لگانے والا نیپولین حفاظت کے نام پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محافظوں کے پروٹوکول میں پھرنے لگا اور سات مثالی اصولوں کو تبدیل کر کے ایک اصول کندہ کر دیا گیا "تمام جانور برابر ہیں، مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں" اور جانوروں کو اس پر یقین دلانے کے لئے نیپولین نے اپنی پروپیگنڈہ بریگیڈ کو جانوروں کی یادداشت کو تبدیل کرنے پر مامور کر دیا گویا وہ یہی سمجھیں کہ اب کا طرزِ حکمرانی ہی درحقیقت انقلاب کے سنہری اصولوں کے مطابق ہے۔
دِن یونہی گزرتے رہے اور جانوروں نے دیکھا کہ ان کے حکمرانوں نے نیپولین کی قیادت میں آہستہ آہستہ نئے انسانوں سے مراسم بڑھا لئے اور فارم کی ترقی اور جانوروں کی فلاح کے لئے انسانوں سے کاروبار کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے انقلاب کے تمام مثالی اصولوں کو یکسر تبدیل کردیا اور پھر وہ دِن آن پہنچا جب جانوروں کو نیپولین انجمن ستائشِ باہمی میں انسانوں کے ساتھ حالتِ نشہ میں تاش کھیلتے اور غل غپاڑہ کرتے بالکل ایک انسان کی مانند لگا۔
وہ انسان جِس کے طبقاتی تفریق، جانوروں کی حق تلفی اور ظلم کے نظام کے خلاف یہ جانور نعروں، نغموں اور گیتوں سے متاثر ہو کر انقلاب لائے تھے۔ مگر وہ سب جانور چپ تھے کیونکہ انہیں علم تھا کہ خود پر ہونے والی تنقید کو نہ برداشت کرنے والا، اختلافِ رائے رکھنے پر میڈیا کو موردِ الزام ٹھہرانے والا نیپولین اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر اپنے مداحوں اور ہم خیال جانوروں کے ہمراہ فارم میں سڑکوں پر اور اپنی رہائش گاہ کے اندر توڑ پھوڑ، مار دھاڑ، جلاؤ گھیراؤ اور کشیدگی کی صورتحال پیدا کر دے گا جس کا نقصان بالآخر عام جانوروں کو اٹھانا پڑے گا۔
کسے خبر تھی کہ جارج آرویل کے ۱۹۴۵ میں لکھے اِس ناول کا سیاق وسباق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے امریکیوں سے کئے گئے وعدوں، اقتدار میں آنے کے بعد ان سے منحرف ہو جانے اور اقتدار کا سورج غروب ہوتا دیکھ کر انہیں بھڑکانے کے واقعات کی پیشگوئی کردے گا۔ جارج آرویل آج زندہ ہوتا تو یقینا عیش دہلوی کا یہ شعر ٹرمپ کی نذر کر دیتا:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے