افغان صدر کا طالبان کی اعانت پر یورپ کو پاکستان کے خلاف ایکشن پر اکسانے کا بیان: دفتر خارجہ کا شدید احتجاج

افغان صدر کا طالبان کی اعانت پر یورپ کو پاکستان کے خلاف ایکشن پر اکسانے کا بیان: دفتر خارجہ کا شدید احتجاج
دفتر خارجہ نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے خلاف افغان قیادت کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات اور بے بنیاد الزام پر اپنے سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ایک بیان میں دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے اسلام آباد میں افغان سفیر کو سخت احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا۔بیان میں کہا گیا کہ ' پاکستان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بے بنیاد الزامات سے اعتماد میں کمی آئے گی اور دونوں برادر ممالک کے درمیان ماحول خراب ہوگا اور افغان امن عمل کو آسان بنانے میں پاکستان کی جانب سے جو تعمیری کردار ادا کیا جا رہا ہے وہ نظرانداز ہوسکتا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ 'افغان فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تمام دوطرفہ امور کو حل کرنے کے لیے افغانستان - پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی کی طرح دستیاب فورمز کو مؤثر انداز میں استعمال کریں۔

دفتر خارجہ کی جانب سے آئے اس بیان سے جڑے معاملے کا پس مںظر کیا ہے؟

دفتر خارجہ کا یہ بیان افغان صدر اشرف غنی کے ایک جرمن اخبار کو انٹرویو میں کیئے گئے دعوووں کے بعد سامنے آیا جس میں افغان صدر نے کہا تھا کہ   پاکستان نے طالبان کے لیے ایک منظم نظام کی حمایت کی ہے۔ اشرف غنی نے کہا تھا کہ 'طالبان کو وہاں سے سامان ملتا ہے، ان کی مالی اعانت ہوتی ہے اور وہاں سے بھرتی بھی ہوتی ہے۔افغان صدر نے جرمن میگزین کو بتایا کہ طالبان کی فیصلہ سازی کرنے والی مختلف تنظیموں کے نام کوئٹہ شوریٰ، میرام شاہ شورہ اور پشاور شوریٰ ہیں، یہ پاکستانی شہروں کے نام پر رکھے گئے ہیں جہاں وہ واقع ہیں، ان کے ریاست کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔

جب سوال کیا گیا کہ وہ اب بھی کسی امن عمل پر یقین رکھتے ہیں تو اشرف غنی نے کہا کہ بنیادی طور پر امن کا فیصلہ علاقائی طور پر کیا جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ ہم اس پر دوبارہ غور کرنے کے دہانے پر ہیں مگر سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان کو اس میں شامل کیا جائے، اب امریکا صرف معمولی کردار ادا کرتا ہے، اب امن یا دشمنی کا سوال پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ یورپی ممالک کے امن عمل میں کردار کے حوالے سے سوال کے جواب میں افغان صدر نے کہا کہ 'وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں، پاکستان ایک ریاست ہے، اس ریاست کو اب ایک اہم فیصلہ کرنا ہے، جرمنی کے واضح پیغامات اور مراعات اس میں مدد فراہم کریں گے اور اگر فیصلہ مختلف ہو تو انہیں پابندیاں متعارف کرانی چاہئیں،۔ یوروپی ہونے کے ناطے آپ کو خود کو مبصرین کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ آپ ان کا براہ راست حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ طالبان کی جانب سے امارت کی یا آمریت کی بحالی خطے اور خصوصاً پاکستان میں کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔

 کیا حال میں پاکستانی عسکری قیادت کا دورفہ افغانستان رائیگاں گیا؟

رواں ماہ 10  مئی کو  آرمی چی جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جس میں انکے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید اور دیگر فوجی افسران بھی شامل تھے۔ یہ وہی دورہ تھا جس کے حوالے سے ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ افغان صدر کو سلیوٹ کر رہے ہیں۔ اور اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی تشریح ایک بدلے ہوئے پاکستان کے طور پر کی گئی تھی۔ اس دورے کے حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آج (پیر) کو دورہ کابل کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پرامن افغانستان کا مطلب بالعموم پرامن خطہ اور بالخصوص پر پُرامن پاکستان ہے۔ تاہم اب پاکستان کے طالبان کی اعانت سے متعلق افغان صدر کے بیان کے بعد پاکستان ایک بار پھر مشکل صورتحال میں ہے۔