خواتین پر جنسی تشدد اور ہمارا معاشرہ

خواتین پر جنسی تشدد اور ہمارا معاشرہ
پاکستان میں ہر روز 8 سے 10 جنسی تشدد، زیادتی اور مار پیٹ کے کیس اخبارات میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ بچوں کیساتھ جنسی زیادتی اور تشدد اس کے علاوہ ہے۔ یہ سب مل کر شاید ایک فیصد بھی نہیں جو اصل میں ہو رہا اور گھریلو معاملہ سمجھ کے دفنا دیا جاتا ہے۔

بشکریہ سوشل میڈیا کچھ واقعات سب کی نظر میں آتے ہیں اور معاملے میں شنوائی کی صورت نظر آتی ہے۔ مگر دو تین دن کے بعد سوشل میڈیا کی آنکھ سے اترا کیس معاشرتی بے غیرتی کے گند میں لتھڑا اس خاندان کی دہلیز سے چپک جاتا ہے جس کے گھر کی عورت یا بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو۔ اور اب تاحیات اس متاثرہ پر بے عزتی کی سیاہی پوت دی جاتی ہے۔ مگر وہ مرد جس نے بے عزتی، بے غیرتی اور تشدد کیا ھوتا ہے وہ اور اس کا خاندان کپڑے جھاڑ، گردن اکڑا کر وہیں رہتا ہے اور پاک صاف بھی۔

اب وہ کیس بچی طیبہ کو مار پیٹ کا ہو یا فیصل آباد کی خدیجہ کیساتھ زیادتی اور تشدد ہو یا صحافی غریدہ فاروقی کے ساتھ غلیظ ٹرولنگ کا۔ مرد تو اس کے چسکے اٹھاتے ہیں مگر انٹر نالئیزڈ مسوجنی میں ڈوبی عورتیں بھی اس کو درست سمجھتی ہیں۔ کیونکہ ضرور عورت نے کچھ تو کیا ہوگا؟ باہر نکلنے والی عورت چاہے وہ تعلیم کے لئے ہو یا کام کرنے والی ورکنگ عورت، دونوں ہوتی ہی شک وشبہ کی زد میں ہیں اور وہ جو پبلک ڈومین میں ہوں اور صحافی بھی ہوں تو بس توبہ توبہ ان کے کردار پر بس صرف کانوں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے۔

جن کے دل میں خدیجہ کیساتھ ہوئی زیادتی دیکھ کر تکلیف ہوئی، ان کو غریدہ کیساتھ ہو رہی گالی گلوچ ٹھیک لگتی ہے۔ یہ ہے وہ دو مونہی منافقت جو ہمارے معاشرے میں سرائیت کر چکی ہے۔ ہم اصول کی بات نہیں کرتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں آگے ہے کون اور پھر اپنی پسند ناپسند کے مطابق اس پر اپنا ردعمل دیتے ہیں۔

اس میں طبقاتی فرق بھی اپنا حصہ ڈالتا ہے جس میں مظلوم صرف نچلا طبقہ ہے اور ظالم امیر طبقہ۔ دونوں کو ہم گنجائش نہیں دیتے کے نچلے طبقے میں بھی کچھ غلط ہوگا اور یہ کہ امیر طبقہ صرف بے راہروی پھیلانے کے لیے نہیں ہے۔

اس سب ذہن سازی میں ہماری ڈرامہ انڈسٹری نے دل کھول کر ناصرف حصہ ڈالا ہے بلکہ اس کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور گلمرائز بھی کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو غلط لگے تو آج کل کے ریٹنگ لینے والے ڈرامے دیکھیں۔ دراڑ، حبس، کیسی تیری خود فرضی، ہم سفر اور فراڈ ان سب میں قدرے مشترک یہ ہے کہ،،،

1: عورت گھر سے باہر نکلے تو ضرور کوئی گند کرنے گئی ہے کیونکہ یہ دکھا رہے ہیں کے پڑھنے کے لئے گھر سے نکلی لڑکی بھی صرف یار بنانے اور چاند چڑھانے کو نکلتی ہے۔ کوئی ڈرامہ نگار یہ نہیں سوچتا کے اس کا لڑکیوں کی تعلیم پر کیا اثر ہوگا؟

2: ورکنگ ویمن ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتی، سوائے گھریلو کام اور سیکرٹری ٹائپ جو معاشی طور پر کمزور اور نچلے طبقہ سے ہونے کی وجہ سے ولنئیرئبل ہوتی ہیں، سو ان کو ہراساں کرنا، ذہنی تشدد کا شکار بنانا بہت آسان ہے اور اگر کوئی ایسا ہوتا دیکھ بھی لے۔ مرد یا عورت تو دوسری طرف منہ کر لیتا ہے اور زیادتی پر آواز نہیں اٹھاتا۔ ڈرامہ نگار کو اس بات کا بھی احساس نہیں کہ کل پچیس فیصد عورتیں کام کرتی ہیں اور ناصرف ان کے یکطرفہ ڈرامے ان کو تعلیم سے دور کر رہے ہیں بلکہ ان کو باعزت کام کرنے سے بھی روک رہے ہیں۔ کوئی ڈرامہ نگار ایک کامیاب ورکنگ ویمن کا کردار نہیں بناتا بلکہ ذرا بہتر ورکنگ ویمن کوئی این جی او والی ہوگی جو اندر سے دو نمبر ہی ہوگی۔ کیوں ڈرامہ نگار مضبوط کام کرتی خواتین کا کردار نہیں لکھتے؟ کیوں مثبت ڈرامے پلاٹ نہیں ہو سکتے جس میں ورکنگ ویمن کی ضروریات کا بہتر حل دکھایا جائے بشمول محفوظ ٹرانسپورٹ کے آپشن تاکہ بہتری ہو پائے نہ کے ان پر تشدد اور زیادتی کے نئے نئے آئیڈیاز پروموٹ کریں

3: عورت کا مصرف گھر داری، بچے جننا، گھر اور سسرال والوں کی خاوند کی گالیاں، بکواس سننا اور مار کھانا ہے۔ اس میں نہ عقل ھوتی ہے نہ سمجھ، وہ صرف کوڑھ مغز ہوتی ہے۔ پڑھ لکھ کر بھی نہ وہ اپنا حق جانتی ہے نہ اپنے لئے آواز اٹھا سکتی ہے اور خود پر اٹھنے والا ہاتھ روکنا تو ناممکن ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مار کھا کے بھی مسکرانا اور اس بات کو نارملائز کرنا کے گھر میں مار پیٹ اور تشدد نارمل ہے۔ تو یہ سب دکھا کر اگر معاشرے میں صنفی تضاد اور جنسی تشدد بڑھ رہا ہے تو پھر رونا کس چیز کا ہے؟

4: نیا تماشا ہے کہ امیر لڑکے کو لڑکی کا پسند آنا اور پھر اس کو حاصل کرنے کے لئے اس کو فراڈ کرنا پڑے۔ اغوا یا زن، زیادتی سب جائز ہے۔ یہ تمام ڈرامے اس طرح کے کام کو ناصرف گلیمرائز کر رہے ہیں بلکہ نارمل بھی بنا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیروئن کے علاوہ ڈرامے میں ایک چنٹ لڑکی ہے جس کا کام ہیروئن کو ذلیل کرنا، بد کردار ثابت کرنا اور اغوا زیادتی جیسے کاموں میں حصہ ڈالنا ہے۔ اور پھر آخر میں اسی اغوا شدہ مار کھائی لڑکی کو اس ٹاکسک پر تشدد مرد پر رحم زدہ پیار ہونا۔

اب آپ کہیے اس سب سے معاشرے کے کس رویہ میں سدھار آ پائے گا؟ کیسے عورت پر صنفی اور جنسی تشدد کم ہو پائے گا؟ ہم کیسے سمجھا پائیں گے کہ ذہنی تشدد بھی تشدد ہے؟ سو آج خدیجہ اور غریدہ کی باری ہے کل کو میری یا آپ کی ہوگی، کیونکہ کچھ تو ہم نے کیا ہوگا۔

فوزیہ یزدانی سابق بیوروکریٹ اور پالیسی ایکسپرٹ ہیں۔ فوزیہ سیاسی و سماجی موضوعات پر قلم کشائی کرتی ہیں۔ نیا دور پر ان کی ویڈیوز بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔