سوشل میڈیا پر چینل ''نیوز ون'' سے وابستہ خاتون صحافی غریدہ فاروقی کو ایک بار پھر تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف گھٹیا، واہیات اور فحش ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے۔
پاکستان کی تمام بڑی صحافتی تنظیموں نے بھی غریدہ فاروقی کے خلاف چلائی جانے والی گھٹیا مہم کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی صارفین اینکر پرسن کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر تنقید کرتے ہوئے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستان میں خواتین صحافیوں کو آن لائن حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اگست 2020 میں پچاس سے زائد خواتین صحافیوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری افسران ان کے خلاف آن لائن حملوں کے لئے لوگوں کو اکساتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکمراں جماعت ان الزامات کی تردید کرتی آئی لیکن حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل اپنے ناقد صحافیوں کے خلاف منظم مہم چلانے میں پیش پیش رہا اور اب بھی ہے۔
غریدہ فاروقی کے خلاف فحش ٹرینڈ میں ٹویٹس کرنے والوں کی اکثریت نے عمران خان کی تصویر ڈی پی میں سجا رکھی ہے۔ جس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی اس مہم میں شامل ہیں۔ کیونکہ ماضی میں بھی ایسے ٹرینڈ چلانا، اسی جماعت کے ہمنوائوں کا خاصا رہا ہے۔ وہ عاصمہ شیرازی ہوں یا غریدہ فاروقی، ثنا بچہ یا ماروی سرمد، اسی سیاسی پارٹی کے عتاب کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔
غریدہ فاروقی کے خلاف حالیہ واہیات ٹرینڈ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے شہباز گل کی میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں انہیں مکمل فٹ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ خیال رہے کہ وہ گذشتہ کئی روز سے پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
9 اگست کو شہباز گل کی گرفتاری کے موقع پر غریدہ فاروقی نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ ''عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گِل کی گرفتاری ہی کافی نہیں۔ مزید تفتیش، گرفتاریاں ہونی چاہیں۔ پورے Evil Nexus نے مل کر پلان بنا کر ARY پر لکھا ہوا بیان پڑھا۔ کس نے لکھ کر دیا، منظوری احکامات کہاں سے آئے، اس ملک دشمن عمل میں کون کون شامل؛ سب کو گرفتار ہونا چاہیے!''
غریدہ فاروقی کو ماضی میں اس وقت ایسے گھٹیا ٹرینڈز کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے لیگی رہنما زبیر کی ویڈیو کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے تھے جس کے بعد ان کے مخالفین نے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک منظم ٹرینڈ چلا دیا تھا اور ان پر آن لائن حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ان حملوں کا جواب دیتے ہوئے غریدہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ جتنے چاہے گندے ٹرینڈز بنا لیں، جتنے چاہے حملے کر لیں، میں اپنے نظریے سے پیچھے نہیں ہٹوں گی جو میں سمجھتی ہوں کہ درست ہے۔ انہوں نے لکھا کہ میں ایسے گندے ٹرینڈ چلانے والوں کے جھوٹوں کو بے نقاب کرتی رہوں گی۔
ایک مرتبہ عیدالاضحیٰ پر ٹویٹ بھی غریدہ فاروقی کے خلاف ٹویٹر کا باعث بن گیا تھا۔ غریدہ نے پیغام میں لکھا تھا کہ اگر ہو سکے تو کسی جانور کی زندگی بچا لیں۔ اپنی زندگی میں اس واقعہ (سنت ابراہیمی) اور خدا کے پیغام کے پیچھے فلسفے کو اپنا لیں۔ یہ دن گوشت کھانے کے لئے مختص نہیں ہے۔ جانوروں سے محبت کریں، انہیں زندہ رہنے دیں۔
غریدہ فاروقی کے اس ٹویٹ پر طوفان کھڑا ہو گیا تھا اور سخت ردعمل آیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین نے #Shame_On_GharidahFarooqi ٹرینڈز چلا کر غریدہ فاروقی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
سوشل میڈیا صارفین نے کہا تھا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم پر اس کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کرنے جا رہے تھے تو شیطان مردود بار بار روکنے کی کوشش کرتا رہا۔ آج جب دنیا بھر کے مسلمان سنت ابراہیمیؑ پوری کرنے جا رہے ہیں تو غریدہ فاروقی انہیں روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ اگر غریدہ فاروقی کو جانوروں سے اتنی محبت ہے تو میکڈونلڈ، کے ایف سی کے مہنگے برگر نہ کھایا کریں، نہاری جو انہیں پسند ہے مت کھایا کریں اور جانوروں کی کھال سے بنے مہنگے لیدر بیگز، جیکٹس بھی استعمال نہ کیا کریں۔
صحافی مرتضیٰ سولنگی اس موقع پر غریدہ فاروقی کی حمایت میں سامنے آئے اور کہا کہ جس طرح سے ایک دنیاوی ٹویٹ جس میں قرآن کی قطعی مخالفت نہیں کی تھی، اس سے غریدہ فاروقی کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی ہے، واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کتنا زہریلا اور عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان کو مؤثر طریقے سے طالبانائز کیا گیا ہے۔ کسی عام ملک کے بارے میں بھول جاؤ، جناح کا پاکستان چھوڑ دو۔