خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمے میں سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ اس عدالتی فیصلے پر سیاسی اور عوامی ردعمل کو چند ہی گھنٹے ہوئے تھے کہ پاک فوج کے ترجمان کا بیان سامنے آ گیا۔ سپہ سالار کے ترجمان نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ پرویز مشرف کسی صورت میں غدار نہیں ہو سکتے کیونکہ انہوں نے ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور 40 سال ملک کی خدمت کی ہے۔
ترجمان نے دوٹوک الفاظ میں بتایا کہ پرویز مشرف کو دفاع کا بنیادی حق نہیں دیا گیا اور نہ ہی آئینی اور قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ اور یہ کہ اس کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ہے نیز عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی ہے اور ان سب خامیوں کی وجہ سے آرمڈ فورسز میں غم و غصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ آخر میں فوج کے ترجمان نے نام لیے بغیر سپریم کورٹ سے انصاف کی توقع بھی کی ہے۔
اس فیصلے کے آئینی اور قانونی پہلوؤں پر پاک فوج کے ترجمان سے لے کر ہر شخص نے اپنی رائے دینی شروع کر دی ہے۔ اگلے چند ماہ میں پاکستان کی معزز اور اعلی ترین عدالت میں اس فیصلے کے قانونی اور آئینی پہلوں پر ہونے والی بحث پوری قوم سنے گئی۔ مجھے پوری امید ہے کہ پاک فوج کے ترجمان کی امنگوں کے عین مطابق انصاف ضرور ملے گا۔
اگرچہ میں نے آئین پڑھا ہے مگر قانون کا طالبعلم نہیں رہا۔ لہذا، میں آئینی اور قانونی پہلوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ لوں گا۔
کیا آئین اور قانون کو توڑے بغیر مارشل لا لگایا جاسکتا ہے؟ میری ذاتی رائے میں مارشل لا کا کوئی قانونی، آئینی اور اخلاقی جواز ہو ہی نہیں سکتا۔ چوری، ڈاکہ زنی، زنا اور قتل جیسے جرائم کو صرف ثابت کیا جاتا ہے۔ کیا جرم کے جواز کی کوئی گنجائش ہوتی ہے؟ جب جرم ثابت ہو جائے تو سزا سنا دی جاتی ہے۔ اسی طرح مارشل لا اور آئین کی معطلی ایک جرم ہے جو زمینی حقائق سے ثابت شدہ ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔
جنرل ایوب کا 11 سالہ دور، جنرل ضیاالحق کی 10 سالہ حکومت اور پرویز مشرف کے 9 سال ایک زمینی حقیقت ہیں۔ عدالت کون سے ثبوت اور جواز کی تلاش میں ہے۔ عدالت نے صرف مشرف کو سزائے موت دے کر اخلاقی کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ویسے بھی پرویز مشرف شدید بیمار ہیں اور ملک سے باہر بھی ہیں۔ چونکہ سزا پر عملدرآمد ممکن نہیں لہذا یہ سزا محض علامتی ہے۔ کم از کم علامتی طور پر ایوب خان، یحیی خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف سب کو شامل کرنا چاہیے تھا تاکہ ایک اخلاقی معیار قاہم ہو جاتا۔ معزز جج صاحبان نے آئینی اور قانونی تقاضے تو شاید پورے کیے ہیں تاہم یہ فیصلہ اخلاقیات کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
پرویز مشرف پر آئین شکنی کا مقدمہ 6 سال تک چلا اور 125 سماعتیں ہوئیں۔ جب جنرل صاحب کو لگا کہ یہ تو فیصلہ آنے لگا ہے تو پرویز مشرف نے بیان دینے پر رضامندی کا اظہار کر دیا تاہم وہ اس وقت تک شدید بیمار ہو چکے تھے۔ اب اس بات کا اخلاقی جواز نہیں کہ یہ تاثر دیا جائے کہ دفاع کا بنیادی حق نہیں دیا گیا اور فیصلہ عجلت میں لیا گیا ہے۔
قانونی حیثیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے آئین شکنی کے مقدمے میں عسکری ترجمان کی طرف سے آئینی تقاضوں کے پورے نہ ہونے کا گلہ کرنا کم از کم اخلاقی لحاظ سے درست نہیں۔ پرویز مشرف جب تک حکومت میں رہے اور خاص طور پر جب تک وہ صدر کے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف بھی رہے تو وہ نہ صرف سفید اور سیاہ کے مالک تھے بلکہ وہ ہر فیصلہ خود کرتے تھے۔ اب سزا کا حق بھی انہیں کا ہے۔ اس بات کا اخلاقی جواز نہیں کہ اب ماتحت سول یا فوجی افسران کو بھی اس میں گھسیٹا جائے۔ باقی جو اوقات وزیراعظم یا باقی وزرا کی کسی مارشل لا دور میں ہوتی ہے اس کو کسی زاویے سے پرکھنا اخلاقی لحاظ سے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ آئین اور قانون اپنی جگہ مگر اخلاقی طور پر سزا کا مستحق صرف اور صرف پرویز مشرف ہے۔ باقی جہاں تک ادارے کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ سے اپنے سپہ سالار کے پیچھے کھڑا ہوتا رہا ہے اور ہونا چاہیے، چاہے وہ مارشل لا لگا دے یا پھر جمہوریت کے تابع ہو کر اپنا مقررہ وقت گزارے۔
پاک فوج کے ترجمان کی پریس ریلیز سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہیں سزا سے زیادہ پرویز مشرف کو غدار کہنے پر اعتراض ہے اور میں صرف اخلاقی طور پر اس کی حمایت کرتا ہوں۔ اصل میں عوامی اور فوجی رائے میں غدار وہ ہوتا ہے جو ملکی راز کسی غیر ملکی شخص یا ادارے کو دے۔ اگرچہ لغت کی روح سے یہ غداری کا صرف ایک پہلو ہے مگر عام اور عسکری فہم میں اسے ایک ہی معنی سے پرکھا اور سمجھا جاتا ہے۔
پرویز مشرف کی سزائے موت کا معاملہ اب خصوصی عدالت سے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ یعنی سپریم کورٹ میں سنا جائے گا۔ میری عدلیہ سے گزارش ہے کہ پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کرنے والوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور ان سے اس سلوک کے آئینی، قانونی اور اخلاقی جواز کے بارے میں پوچھا جائے۔ جب پرویز مشرف اس ملک میں واپس آ گئے تھے اور مقدمہ درج ہو چکا تھا تو جنہوں نے دوبارہ ان کی گاڑی کو عدالت کی بجائے فوجی ہسپتال کی طرف موڑ دیا اور پھر دبئی جانے دیا ان سے بھی اس حرکت کے اخلاقی جواز کے بارے میں باز پرس کی جائے۔ جن معزز جج صاحبان نے اس غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کو جائز قرار دے کر انہیں ہر طرح کی تبدیلی کرنے کا اختیار دیا انہیں بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور اس کے اخلاقی جواز پر تفتیش کی جائے۔
آئینی یا قانونی پہلو ایک طرف مگر کسی بھی عدالتی فیصلے پر ادارتی رائے کا اخلاقی جواز نہیں ہوتا۔ اعلی عدلیہ کو اس بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس کیوں نہیں ہوئی اس کا اخلاقی جواز تلاش کرنے کی ضرورت بھی ہے؟
ماضی قریب میں اعلیٰ عدلیہ کے سینئر ترین جج کی طرف سے پرویز مشرف کے کیس میں ہونے والے ممکنہ فیصلے پر جن الفاظ کا چناؤ کیا گیا اور جو جسمانی اشارہ کیا گیا وہ کسی اخلاقیات میں نہیں آتا اور نہ ہی اس کی توقع تھی۔ تاہم اس حرکت نے فیصلے کی قانونی اور آئینی حیثیت پر کم مگر اخلاقی پہلو پر ذیادہ اثر ڈالا ہے۔ اعلی عدلیہ کو آئینی یا قانونی نہ سہی مگر اخلاقی لحاظ سے خاموش مارشل لا کا بھی ازخود نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ قوم یہ خاموش مارشل لا پچھلے 11 سال سے دیکھ اور محسوس کر رہی ہے۔ چاہے دھرنا عمران خان کا ہو، مولوی خادم حسین رضوی کا یا پھر مولانا فضل الرحمان کا مجمع ہو، قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں یا پھر سینٹ کے، اعلی عدلیہ کا برامدہ ہو یا پھر سیاستدانوں کے یوٹرن، میڈیا ہو یا صحافی ہوں، ہر طرف ایک عجیب سی طاقت محسوس ہوتی ہے۔
72 سال بعد اگر ہم قوم بننا چاہتے ہیں تو اس کے لئے سب سے پہلے اداروں کو اپنی حدود پہچاننا ہوں گی، چاہے وہ عسکری ادارہ ہو عدلیہ ہو یا پھر کوئی انتظامی ادارہ۔
ریاست ماں کے جیسی ہے اور اس کی اخلاقیات کا ایک معیار مقرر ہے جسے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک کی علاقائی سرحدوں کی حفاظت عسکری اداروں کی ذمہ داری ہے جبکہ آئینی سرحدوں کی حفاظت عدلیہ نے اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت جمہوریت نے کرنی ہے اور یہی کل کے پاکستان کی اخلاقیات ہونی چاہیے۔