انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کو آئین کی حکمرانی پر متفق ہونا ہوگا

پچھلی 10 سالہ سیاست نے ہماری آئینی و جمہوری اساس کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کے نتیجے میں وجود پانے والے سیاسی عدم استحکام نے ناصرف معیشت اور معاشرت کا ستیاناس کیا بلکہ ہمارے مستقبل کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کو آئین کی حکمرانی پر متفق ہونا ہوگا

اگلے انتخابات کا منشور آئین کی بالادستی، جمہوری اقدار کا تحفظ، اصولی سیاست کا عہد، اعلیٰ اخلاقیات کی ترویج اور سیاسی شعور کی آگاہی ہونا چاہئیے۔

پاکستان کی تاریخ میں بڑے انتخابات ہوئے، بڑے بڑے اتحاد بنے اور ان کے نتیجے میں حکومتیں بھی بنتی اور گرتی رہیں حتیٰ کہ ملک بھی دولخت ہوگیا لیکن ہم آج تک اس راہ پر گامزن نہیں ہو سکے جس کا ہم نے متفقہ طور پر 1973 کے آئین میں تعین کیا تھا۔

یوں تو 1973 کے آئین سے قبل بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ قابل فخر نہیں رہی مگر اس کے بعد جو کچھ اس ملک اور آئین کے ساتھ ہوا وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ تاریخی حقائق تو ہم ہر روز سنتے، پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ان تمام مسائل خواہ وہ معیشت کی خرابی ہو، امن عامہ کا مسئلہ ہو، سیاسی عدم استحکام ہو یا بدعنوانی؛ ان کی وجوہات کی بنیاد آئین پاکستان سے روگردانی کر کے ریاست کے ساتھ بے وفائی ہے۔

Article 5 of the constitution of Pakistan reads:

(1) Loyalty to State and obedience to Constitution and law.

(2) Loyalty to the state is the basic duty of every citizen wherever he may be and of every other person for time being within Pakistan.

آئین کا آرٹیکل 5 ہر شہری کو آئین کی فرماں برداری اور ملک سے وفاداری کا پابند بناتا ہے۔ اگر تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اس متعین کردہ راہ پر چل کر ملک و قوم کا سر دنیا میں بلند کرنا ہے تو پھر آج سے اسی طرح متفقہ طور پر جیسے یہ آئین کہتا ہے اس کی روح کے مطابق اس کی فرماں برداری کو یقینی بنانے کا تہیہ کرنا ہو گا۔

اس کے لئے جو آج سازگار ماحول میسر ہے وہ شاید پہلے کبھی نہیں ملا۔ آج ادارے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے ان کا ازالہ کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اندر پہلی بار خود احتسابی کا عمل جاری ہے اور سپریم کورٹ مکمل طور پر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا عندیہ دے چکی ہے۔ میڈیا کو ہر طرح کی بے یقینی کی بات کرنے سے منع کیا گیا۔ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے تجربات کی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنے کا عندیہ دیا۔

سپریم کورٹ سے ابھرنے والی آوازیں آئین اور پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے آئین کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کے راستے کو بند کرنے کا تہیہ کیے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں جس کی گواہی ان کے فیصلے دے رہے ہیں۔ اگر عدلیہ غیر آئینی اقدامات پر سمجھوتہ نہ کرے تو کوئی بھی ادارہ آئین و قانون سے ہٹ کر نہیں چل سکتا۔

جہاں ادارے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ازالے کے لئے کوشاں ہیں وہاں سیاست دانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے باز رہنے کے لئے کسی میثاق پر یکجا ہو کر جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کو اپنانے کا عہد کریں جس کے تحت وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آج کے بعد وہ کسی طرح کے بھی غیر آئینی اقدمات کو اپنا کندھا مہیا نہیں کریں گے۔ اور جو سیاسی جماعت یا سیاست دان اس معاہدے میں شرکت نہیں کرتا اس کا عوام کو محاسبہ کرنا چاہئیے۔

پچھلی 10 سالہ سیاست نے ہماری آئینی و جمہوری اساس کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کے نتیجے میں وجود پانے والے سیاسی عدم استحکام نے ناصرف معیشت اور معاشرت کا ستیاناس کیا بلکہ ہمارے مستقبل کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ بڑی مشکل سے حالات قابو میں آئے ہیں اور اس وقت بہتری کے لئے سازگار ماحول پیدا ہو چکا ہے جو فوراً ایک مضبوط جمہوری حکومت کا تقاضا کر رہا ہے جو اصلاحات سے اس ماحول کو پائیدار اور مضبوط بنائے تاکہ مستقبل کے خطرات سے محفوظ رہا جا سکے۔

آج ہم اداروں کے سربراہان کی سوچوں میں جو ذہانت کی جھلک، عمل میں قوم و ملک کی فلاح کا درد اور آنکھوں میں امیدوں کی کرن دیکھ رہے ہیں اس کی قدر ہونی چاہئیے۔ خدشات کی راہوں کو بند کرنا ہو گا۔ اداروں سے نفرت پیدا کر کے ریاست کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا۔ اداروں کو پختہ سوچوں کی سپردگی کے اس ماحول کو جاری رکھنے کے لئے عوام، اداروں اور سیاست دانون میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ماضی کی قومی بے وقوفیوں سے باز رہتے ہوئے اپنے اندر یہ احساس جگانا ہو گا کہ ہم سب کو میسر سہولتیں اس ریاست کے وسائل اور آزادی سے مشروط ہیں جن کے استعمال کا اختیار ہماری اجتماعی فلاح سے منسوب ہے۔ اگر ہم اس کو پھر سے ماضی کی طرح ذاتی مفادات پر وارنے لگ گئے تو پھر اسی پرانے گڑھے میں جا گریں گے۔

ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے حالات ہماری تربیت و معاشرت کے عکاس ہیں۔ کوئی جس بھی عہدے پر بیٹھا ہے، خواہ وہ چیف جسٹس کا ہو، چیف آف آرمی سٹاف کا ہو، وزیر اعظم کا ہو یا صدر پاکستان کا؛ وہ کوئی غیر نہیں ہم میں سے ہی ہے۔ ہمارے اچھے اور برے حالات کا سبب ہماری سوچیں ہیں۔ جب ان عہدوں پر اچھی سوچ براجماں ہوتی ہے تو اچھے نتائج آنا شروع ہو جاتے ہیں اور جب ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والی سوچ براجمان ہوتی ہے تو تباہی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بحیثیت قوم اس پر غور و فکر کر کے اس کی وجوہات کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر اعلیٰ اخلاقیات اور سیاسی شعور کو اجاگر کر کے یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کے وسائل، مراعات اور سہولتیں ملک و قوم کی ملکیت ہیں اور ان کا مقصد ذاتی مفادات کا حصول نہیں بلکہ آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور ملک و قوم کی خوشحالی ہے اور ان میں کسی بھی طرح کی کوتاہی ایک قومی جرم ہے۔

صحافت کے شعبہ کو ایک واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتے ہوئے عوام، سیاست دانوں اور اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ہر پل یاد دہانی کروانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہو گی۔ ریاستی اداروں کو آئینی طور پر فعال بنانے اور آئین پر عمل درآمد کروانے کے لئے اخلاقی دباؤ بڑھانا ہو گا۔ جہاں جہاں بھی کمزوریاں نظرآئیں ان کی اچھے انداز میں نشاندہی کر کے درستگی کی کوشش کی جائے۔

صحافت ایک بہت ہی ذمہ دارانہ شعبہ ہے۔ میں مانتا ہوں کہ کبھی کبھی ان کو حالات سے مجبور شکوک و شبہات اور خدشات کا سہارا لیتے ہوئے بہتری کی راہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں مگر ان خدشات کی کوئی ٹھوس بنیاد اور اس کے پیچھے اصلاح کا پہلو ہونا چاہئیے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ صحافت کا شعبہ پیشہ ورانہ ماہرین کی بجائے مفاد پرست کاروباری لوگوں کے ہتھے چڑھ چکا ہے اور خدشات کا جو طویل سلسلہ شروع ہے اس سے تو انتخابات انعقاد سے پہلے ہی متازعہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جس سے ان کا اصل مقصد ہی اپنی افادیت کھوتا چلا جا رہا ہے۔

اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی طرف سے خاموشی بھی ہے جس سے ناصرف ایسے بیانیے کو تقویت مل رہی ہے بلکہ مشتبہ سازشوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو رہی ہے۔ ان میں انتخابات کو ملتوی کروانے کی کوششیں بھی جاری ہیں جن میں سے ایک کو جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے ناکام بنا کر انتخابات کا شیڈول بھی جاری کروا دیا ہے۔ جمہوریت کو ڈیل ریل کرنے والے چاہتے ہیں کہ اس ماحول کو خواہ مخواہ کے بکھیڑوں میں ڈال کر وقت ضائع کر دیا جائے اور بہتری کا عمل شروع ہی نہ ہو پائے۔

لہٰذا حکومت کو چاہئیے کہ وہ ایسے بیانیوں کی تحقیقات کروائیں اور متعلقہ اداروں کو حرکت میں لا کر ضابطہ اخلاق کی پابندی کروائیں تاکہ صحافت کو ریگولرائز کر کے ذمہ دارانہ رویوں کو یقینی بنایا جا سکے اور اگر کسی سازشی تھیوری کے ثبوت ملیں تو ان پر ایکشن لیا جانا چاہئیے۔

الیکشن کمیشن کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کی افواہوں، خدشات اور شکوک و شبہات پر ایسے لوگوں سے جاننے کی کوشش کریں اور اگر کہیں تحفظات موجود ہوں تو ان کو دور کیا جائے۔ اگر محض الزامات ہوں تو پھر ان کے خاتمے کے لئے حکومت اور متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ایسے خدشات کا خاتمہ کر کے متنازعہ بنائے جانے والے عوامل کو ختم کروائیں۔

ان خدشات کی بنیاد ہماری سیاست کے اندر ماضی کے واقعات بھی ہیں مگر اب ملک و قوم کی ترقی و فلاح یہ تقاضا کر رہی ہے کہ ان کو بھلا کر آگے بڑھنے کی نئی راہیں تلاش کی جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں جس نے خوشحالی و ترقی کے لئے محنت کی ہوئی ہو اس کو ضائع ہونے کا افسوس بھی لگتا ہے مگر ان سب کا حل اب آئین کی حکمرانی میں ہی ہے۔ اب ان زیادتیوں اور غلطیوں کا انتقام جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کے ماحول کو یقینی بنا کر ہی لیا جا سکتا ہے۔ اب یہی نعرہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور سارے نقصانوں کا بدل بھی۔

اگلے ایک سے تین سال انتہائی اہم ہیں جن میں ناصرف سیاسی عدم استحکام کو پابند رکھنے کا ایک خاص بندوبست اور ماحول بلکہ عدلیہ کی طرف سے بھی پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کئے جانے کا ایک محفوظ آئینی دفاعی حق میسر ہوگا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مقدمے کی سماعت کے دوران پارلیمان کی بالادستی اور قانون بنانے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی پاسداری کے لئے ماحول سے فائدہ اٹھانے کے لئے سیاست دانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

ایسے مواقع بہت کم ملتے ہیں اور اگر اس دفعہ بھی موقع ضائع کر دیا گیا تو پھر اس کے ذمہ دار سیاست دان خود ہوں گے۔ آئین سے بے وفائی کے طعنے صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہی نہ دیے جائیں بلکہ صحافت، عدالت اور سیاست کہیں بھی ہمیں آئین کی روح مطمئن نظر نہیں آتی۔

سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی بنتی ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ ناصرف انتخابات کے وقت پر انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے بلکہ اس کے نتائج کو بھی شفاف اور غیر جانبدارانہ بنا کر متنازعہ بنانے والی سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔

اس کے لئے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ماضی کے اختلافات پس پشت ڈال کر کوئی ایسا فارمولا بنانا ہوگا جس سے ہر سیاسی جماعت کو اس کے مینڈیٹ کے مطابق عوامی خدمت کے حق کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ اقتدار کی جنگ کا خبط ذہنوں سے نکل سکے اور سب ملک و قوم کی فلاح کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر انسانیت کی بقا اور خدمت کے لئے کمر بستہ ہو سکیں۔

لہٰذا اس کے لئے ضروری ہے کہ سب مل کر ان انتخابات کو آئین کی حکمرانی کے منشور سے منسوب کریں۔ کیونکہ ریاستوں کے اندر امن، ترقی اور خوشحالی کی ضمانت آئین کی حکمرانی سے ہی یقینی بنائی جا سکتی ہے اور یہی ایک پائیدار ترقی و خوشحالی کی راہ ہے جسے ہمارا آئین متعین کرتا ہے۔ اور وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے پوری قوم کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ آئین ہی قوموں کے اتحاد اور یگانگت کی علامت ہوتا ہے۔

اس کے لئے نواز شریف کا انتخابی اتحاد کا فارمولا جو سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر جاری ہے بہترین حکمت عملی ہے اور اس کو انتخابات کے نتائج کی مطابقت سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ مگر سیاسی حلقوں کو اس عہد پر حلف لینا ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرتے ہوئے ملک کو امن و خوشحالی کا گہوارہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور ملک کے آئین کی بالادستی کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیں گے۔ اس میثاق پر بلا تفریق سب جماعتوں کو شرکت کا موقع فراہم کیا جانا چاہئیے۔

ہمیں اپنی قومی صلاحیتوں کو آپس کی کشمکش میں ضائع کرنے کے بجائے ملک میں امن و خوشحالی کے خواب کو پورا کرنے پر صرف کرنے کا اعادہ کرنا ہو گا۔ ذاتی کشمکش سے نکلنے کا حل یہ ہے کہ ذاتی مفادات اور خواہشات کی سوچوں کے دائرے کو بڑھا کر ملک و قوم اور انسانیت کی فلاح تک وسیع کر لیا جائے۔