اٹھتے بیٹھتے رب سے ایک ہی شکوہ تھا، ہمیں بھالو کیوں نہ بنایا؟

اٹھتے بیٹھتے رب سے ایک ہی شکوہ تھا، ہمیں بھالو کیوں نہ بنایا؟
دیکھیے! اگر آپ توکل کرنا چاہیں اور بندہ ہماری طرح سارے سوال جواب بھی خود سے ہی کرتا رہتا ہو تو رب کریم کیسے اطمینان کی راہیں سجھاتے ہیں۔

ہر برس جب سرما آتی ہے۔ یخ بستہ ماحول میں بھاری بھرکم برفانی بوٹس اور برفانی جیکٹس پہن کر باہر نکلنا طبع نازک پر انتہائی گراں گزرتا ہے۔ گاڑی پہلے سے سٹارٹ کر کے گرم نہ کی جا سکے جو اکثر ہی ہوتا ہے، تو ٹھنڈے سٹیرنگ وھیل پر ہاتھ رکھنا انگلیوں کے لئے سزا بن جاتا ہے۔

چونکہ خاصے غریب ہیں اس لئے گاڑی بھی ایسی پرانی ہوچکی کہ ہیٹر بھی کبھی کبھی بے وفائی کر دیتا ہے۔ ایسے میں گاڑی برف کی قبر محسوس ہونے لگتی ہے۔ برنارڈ شا غربت میں کتا نہ رکھ سکنے کے سبب خود بھونک کر چوروں کو بھگایا کرتے تھے، ہم باآواز بلند گنگنا کر سردی کو اگنور کیا کرتے ہیں اور جذبات کی گرمی سے اپنے ذہن کو بہلانے بلکہ بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

دھواں دھواں سا اداس موسم ہو، دن پلک جھپکتے میں گزر جایا کریں اور رات صاحبہ اپنی خاموش تاریکی کا خیمہ سنبھالے وقت سے بہت پہلے ہی اپنی شفٹ پر آن موجود ہو کر ہماری وحشت بڑھانے کا سامان کریں تو ایسے میں گھر سے باہر نکلنے کو کس کا جی چاہے گا۔

موسم سرما میں ویسے بھی گرم بستر سے بڑھ کر قتالۂ عالم اور Temptress کوئی نہیں ہوتا اور اگر کوئی ہم ایسا کاہل الوجود ہو جس کی سب سے دیرینہ حسرت دیر دیر تک سونا ہو، تو بستر کی ترغیبات و اکساہٹوں سے خود کو محفوظ رکھنا اس کے ایمان اور نفس کے لئے بڑی آزمائش بن جاتا ہے۔

مگر گھر میں ٹکے رہنے کی عیاشی ہم ناداروں کے نصیب میں کہاں؟

ناچار اپنے کمرے کے محمل میں لیلائے بستر سے منہ موڑ کر اور ہیٹر کی مرہون منت لونگ روم کی گرمئی محفل کی طرف سے آنکھیں میچ کر نکلنا ہی پڑتا ہے۔

لوگوں کی ہوتی ہوں گی خواہشات اور رب سے شکوے شکایات۔ کہ بندہ جس سے محبت کرتا ہے نخرے اور شکوے بھی اسی سے کرتا ہے۔

ہم تو ہر موسم سرما میں خواہشات نفس پر اس قدر قدغن لگاتے لگاتے تھک کر اور ضبط آرزو کی مشقت میں ایک ہی شکوہ کیا کرتے ہیں۔

ہمیں بھالو کیوں نہ بنایا؟

زندگی کی کوئی مسرت موسم سرما میں چھ ماہ کی طویل اور بے فکری نیند سے بڑھ کر  نہیں ہو سکتی۔

آہ، یہ تصور کس قدر خوش کن اور بذات خود خواب آگیں ہے کہ آپ قدرتی طور پر بالوں والا بھاری گرم کمبل اوڑھے اپنے اندھیرے اور آرام دہ غار میں بے فکری سے چھ ماہ تک سوتے رہیں۔

نہ صاحب صبح چبھتی ہوئی لائٹ روشن کر کے اٹھائیں اور ناشتہ بنانے کی فرمائش کریں، نہ بچوں کو صبح سکول بھیجنا ہو، نہ ہی آج کیا پکایا جائے جیسا مسئلہ لاینحل ہر روز درپیش ہو، نہ غار سے باہر نکل کر روزگار کے لئے نکلنا پڑے، نہ بے وقت سونے اٹھنے پر احساس ندامت اور لعن طعن کا سامنا ہو۔

آہ! کیا کسی بھالو سے زیادہ خوش قسمت جاندار بھی اس دنیا میں پایا گیا ہے؟

گرما آجائے تو پہاڑوں میں جنگل پر مست خرامی میں مشغول رہا جائے۔ بھوک لگی تو کسی ملین ائر کی سی بےفکری سے دریا پر جا کر بیٹھ رہے۔ آتی جاتی اچھلتی مچھلیوں کو بغیر زیادہ ہلے جلے ایک ہی ہاتھ کو حرکت دے کر پکڑ لیا۔ وہیں بیٹھ کر کھا لیا اور برتن دھونے اور کچن سمیٹنے کی جھنجھٹ سے آزاد کسی اور طرف نکل گئے۔ بھری دو پہروں میں کسی سایہ دار درخت کے نیچے پڑ کر قیلولہ فرما لیا کیونکہ شام کو کوئی کلینک پر آپ کا انتظار نہ کرتا ہوگا۔

بھالو کے چلنے کا انداز دیکھا ہے آپ نے؟ واہ واہ!

کوئی جلدی نہیں۔ کہیں وقت پر نہیں پہنچنا۔ دھیمی چال سے ادھر ادھر دیکھتے مست مگن چلے جا رہے ہیں۔

نہ امتحان لکھنے کی فکر نہ رزلٹ کا جان لیوا انتظار، نہ شاپنگ کرنے کے مسئلے۔

بھالو کو دیکھیے تو جانیے وہ مست خرامی ہوتی کیا ہے جس کا شاعری میں تذکرہ ملتا ہے۔

ان کے مست خرام نے مارا
ان کی طرز ادا نے لوٹ لیا

اور

جھوم جھوم اٹھے شجر کلیوں نے آنکھیں کھول دیں
جانب گلشن کوئی مست خرام آ ہی گیا

تو صاحبو! یہ ہر سال ہوتا ہے۔

جب جب سردی میں باہر نکلنا ہوتا ہے، بھاری بھرکم سنو جیکٹ اور خلانوردوں جیسے بھاری بھرکم سنو سوٹ پہننے پر خود کو مجبور پاتے ہیں تو بہت درد سے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں بھالو نہیں بنا سکتے تھے آپ؟ Brave دیکھی تو حیران ہوکر بچوں سے کہا کہ اگر میریڈا کی امی بھالو بن گئی ہیں تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ کاش ہماری اولاد بھی اس قدر لائق اور قابل ہوتی کہ ہمارے لئے کسی جادوگرنی سے ایسا محلول مانگ کر لاسکتی کہ ہم بھی بھالو بن جاتے۔

بچے تو گھبرا کر روہانسو ہی ہو گئے۔

شہزادی صاحبہ خفا ہو کر بولیں، “مماااا! آپ ایسی ہی باتیں کیوں کرتی ہیں؟”

یحییٰ صاحب بھولا سا منہ بنا کر بولے، “میں تو آپ کو مس کروں گا نا۔ اور ابراہیم کو آپ سے ڈر لگے گا۔”

ہم نے ایک نہ سنی۔ بھالو بن کر چھ ماہ تک سوتے رہنے کی ترغیب اس قدر شاندار ہے کہ ہم مزاحمت نہیں کر سکتے۔ ٹالنے کو کہہ دیا،

“ہاں تو پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ ہماری اولاد کون سی اتنی قابل ہے کہ ماں کے لئے ایسی مشقت اٹھائے؟”

تو صاحبو! جب ہم نے کسی کی مان کر نہ دی، نہ بچوں کی رونی صورت اور نہ صاحب کا مکمل نظر انداز کرنا ہمارے شکووں اور ٹھنڈی آہوں کو کم کر سکا تو اللہ نے خود ہی ایک نیا خیال ہمیں سجھا دیا۔

خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ خواہش تو پوری ہوئی مگر کسی ٹیکنکل خرابی کے سبب بگ براؤن بیئر کے بجائے پولر بیئر یعنی برفانی ریچھ بنا دیے گئے ہیں۔

ہائے اللہ! یعنی کہ قطب شمالی کی آٹھ ماہ کی سخت سردی میں بھاری گرم کھال کا بوجھ لادے برف کے صحرا میں چلنا پڑ رہا ہے۔ اسی برف میں اپنے خوبصورت لمبے ناخنوں سے جن کو نیل پالش سے سجانے کی حسرت رہتی ہے، برف کھود کر یخ بستہ پانی میں ہاتھ ڈال ڈال کر مچھلیاں پکڑنی پڑ رہی ہیں۔ اور موسم گرما میں وہی گرم سوٹ پہنے گھاس پر چلنا کس قدر تکلیف دہ منظر ہے۔

ہم حق دق رہ گئے۔ دہشت زدہ ہو کرچیخ مار کر اٹھ بیٹھے۔ خوب توبہ تلا کی۔

مالک کی بارگاہ میں سجدۂ شکر بجا لائے کہ ابھی اپنے ہی آپے میں ہیں۔

سچ کہتے ہیں بزرگ جو ملا اس پر صبر شکر کرو۔ ورنہ وہ مل سکتا تھا جو اس سے بھی گیا گزرا ہوتا۔

تب سے ایمان کی حلاوت بھی نصیب ہوئی ہے اور رب کریم سے جھینپے جھینپے مل کر عاجزی و انکساری کی دولت سے بھی فیضیاب ہو رہے ہیں۔

مصنفہ طب اور نفسیات کی طالبہ، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور کمیونیٹی ورک میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے خاص لگاؤ ہے، چھوٹی عمر سے میگزینز میں لکھ رہی ہیں۔