بلوچستان کے طالبعلموں کی بھوک ہڑتال سے زیادہ اہمیت لاہور کے گدھوں کی ہے؛ کیا بلوچ طالبعلم آن لائن کلاسز کے لئے بھی پہاڑوں پر جائیں؟

بلوچستان کے طالبعلموں کی بھوک ہڑتال سے زیادہ اہمیت لاہور کے گدھوں کی ہے؛ کیا بلوچ طالبعلم آن لائن کلاسز کے لئے بھی پہاڑوں پر جائیں؟
انیلہ یوسف کا تعلق ضلع گوادر کے ایک ساحلی شہر پشکان سے ہے، وہ اس وقت کراچی یونیورسٹی سے ٹیچر ایجوکیشن میں ایم فل کر رہی ہیں۔ کرونا لاک ڈاؤن کے سبب ملک کے تعلیمی ادارے بند ہیں، اس لئے وہ اپنے گھر میں "میرا گھر میرا سکول" مہم کے تحت بچوں کی سکولنگ کر رہی ہیں مگر اب مصیبت یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی حکم کے مطابق ملک کے جامعات آن لائن کلاسز کا آغاز کریں گی، جو انیلہ کے مطابق ملک کے دور دراز رہنے والے طالبعلموں کے لیے ایک نئی مصیبت ہوگی۔

انیلہ کہتی ہے کہ بلوچستان کے کئی شہر انٹرنیٹ سے محروم ہیں، اگر انٹرنیٹ کہیں ہے بھی تو ایسا نہیں کہ آن لائن کلاسز ممکن ہوں، یہ فیصلہ طالبعلموں کے لئے انتہائی اذیت ناک ہے۔

فروری 2017 سے اب تک بلوچستان کے ضلع کیچ میں انٹرنٹ سروس معطل ہے، کیچ آبادی کے لحاظ بلوچستان کا دوسرا بڑا ضلع ہے اور باقی بلوچستان کی نسبت یہاں شرح خواندگی کی صورتحال بھی بہتر ہے۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالامال صوبہ بلوچستان میں شرح خواندگی 41 فیصد ہے جو باقی صوبوں کی نسبت کم ترین شرح ہے۔

گذشتہ دنوں کیچ کے طالبعلموں نے ضلعی ہیڈکواٹر تربت میں آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاجی مظاہرہ اور بھوک ہڑتال کی۔ یہ طلبہ و  طالبات ملک کے مختلف شہروں میں زیر تعلیم ہیں۔ ضلع پنجگور بھی انٹرنٹ سے محروم ہے، جہاں پچھلے دنوں کامسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم ذاکر بلوچ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پیپر نہ دے سکے اور فیل ہوگئے۔

چنگیز ساحر، ذاکر بلوچ کے دوست ہیں وہ  کہتے ہیں کہ ذاکر ان کے گروپ میں شامل ہیں اور وہ پیپر کے دن پنجگور کی گلیوں میں در بدر گھومتے رہے مگر انٹرنٹ سے کونیکٹ نہ ہوسکے اور ان کا پیپر نہ ہوسکا۔

چنگیز پوچھتے ہیں کہ اگر کراچی جیسے شہر میں انٹرنیٹ ہے بھی تو لیاری اور ملیر کے وہ طالبعلم جو لاک ڈاؤن سے پہلے محنت مزدوری کر کے اپنی فیس ادا کرتے تھے وہ اب کہاں سے اور کیسے پیکج کرائیں گے؟

ڈاکٹر ببرک نیاز جامعہ بلوچستان کے شعبہ میڈیا سٹڈیز کے استاد ہیں۔ وہ  کہتے ہیں کہ ایک سمسٹر میں تقریباً پچاس کے قریب طالب علم ہوتے ہیں مگر اس وقت بمشکل پندرہ بیس ہی آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ایسی صورت حال ہے کہ انتظامیہ، حکومت اور بے چارے طالب علم سب مجبور ہیں۔

انھیں اس بات کا علم ہے کہ آن لائن کلاسز سے صرف پانچ سے دس فیصد ہی طالبعلم مستفید ہو رہے ہیں اور اکثریت محروم ہیں مگر اس کے علاوہ بھی کوئی حل نہیں۔

آن لائن کلاسز اور فیسز کے خلاف بلوچ طالبعلموں کی مختلف تنظیموں نے 9 جون سے کراچی پریس کلب کے سامنے تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر احتجاج کا آغاز کیا جس کے بعد سے اب تک بلوچستان کے مختلف شہروں میں طالبعلم احتجاجی مظاہرے کر کے بھوک ہڑتال پر بیھٹے ہیں۔



ولید بلوچ تربت یونیورسٹی گوادر کیمپس سے بی ایس ایجوکیشن کا طالب علم ہیں، انھیں ڈر ہے کہ اب تربت یونیورسٹی بھی آن لائن کلاسز کا اعلان نہ کردے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ قیامت کی نشانی ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ نے بھی آن لائن کلاسز کا اعلان کیا ہے جسے اپنے صوبے کے حالات کا اچھی طرح علم ہے۔ ایچ ای سی کی دفتر میں بیٹھ کر اشرافیہ کو بالکل بھی اندازہ نہیں کہ دوردراز علاقوں کے حالات کیسے ہیں، سی پیک جیسی میگا سٹی گوادر میں موبائل نیٹ ورکس نہیں تو آواران، واشک اور اندرون بلوچستان کی کیا صورتحال ہوگی؟ یہ انتہائی ناقابل تصور ہے اور اسلام آباد والوں کو بالکل اس کا اندازہ بھی نہیں۔

ولید بلوچ کو ملکی میڈیا سے شکایت ہے کہ ان کے لیے بلوچستان کے طالبعلموں کی بھوک ہڑتال سے زیادہ اہمیت لاہور کے گدھوں کی ہے۔



پہاڑ بلوچستان میں مزاحمت کی علامت ہیں، صلاح الدین بیوس کراچی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹر کر رہے ہیں، آن لائن کلاسز سے متعلق وہ اپنے ٹویٹ میں کوہ سلیمان کے پہاڑوں پر انٹرنٹ کنکشن کی تلاش میں ایک طالبعلم کی تصویر لگا کر کر لکھتے ہیں کہ ‏ بلوچستان میں انٹرنیٹ کے لیے بھی پہاڑوں پر چڑھنا پڑتا ہے، اور پہاڑوں پر چڑھنے کا مطلب ہے کسی بھی انجان گولی کو اپنے نام کرنا۔

ایم فل سکالر انیلہ نے گذشتہ رات بڑی صبر آزمائی اور مصیبتوں کے بعد اپنا اسائنمنٹ جمع کرایا۔ انیلہ کہتی ہے کہ یہاں انٹرنٹ سگنلز کے لیے ساری رات جاگنا پڑتا ہے کہ پتہ نہیں کونسے کونے میں کب تھوڑے سے سگنلز آئیں اور میل سینڈ ہوسکے، ہم فروفیشنل ڈگری میں ایم فل کر رہے ہیں اگر ایسا مناسب ہوتا تو اتنی دور کراچی میں جا کر کیوں داخلہ لیتے؟ علامہ اقبال اوپن یونیوسٹی سے گھر بیٹھ کر نہ کرتے؟

بلوچستان کے مختلف شہر اس وقت طویل دورانیہ کے لوڈشیڈنگ کا بھی شکار ہیں، جہاں پچھلے کئی دنوں سے گوادر میں آل پارٹیز اتحاد کا احتجاجی دھرنہ بھی جاری ہے۔ اس کے ساتھ صوبے کے طالبعلم بھوک ہڑتال پر بیھٹے ہیں، جن کا مطالبہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آن لائن کلاسز سے متعلق اپنی بیان واپس لے کر جامعات اس وبا کے ایام میں فیسز معاف کرنے کا اعلان کریں اور حکومت صوبے بھر میں 4g انٹرنٹ بحال کرے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔