’’لوہے کے چنے تھے گلانے تھے گلا دیے‘‘

’’لوہے کے چنے تھے گلانے تھے گلا دیے‘‘
اقتدار کبھی بھی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوا، یہ ہمیشہ ہی کانٹوں کا بستر ہوتا ہے، چاہے وہ امریکہ کی ترقی یافتہ معیشت ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان کا اقتدار تو ہمیشہ ہی کانٹوں کی سیج رہا ہے۔ کیوں کہ یہاں سیاستدانوں کے علاوہ بھی سیاست ہوا کرتی ہے جس کا سب کو علم ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اب ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب انتخابات 2018 کے سلسلے میں پنجاب میں تھا تو لوگ عمران خان کو امید کی پہلی اور آخری کرن سمجھ کر آس لگائے بیٹھے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اب پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔ لیکن جتنی تیزی سے تحریک انصاف کی حکومت کو پزیرائی ملی اتنی ہی تیزی سے ان کی ساکھ متاثر بھی ہوئی۔ پکڑ دھکڑ سیاستدانوں سے شروع ہوئی اور میڈیا تک آ گئی مگر نیب کے احتساب کے بے لگام گھوڑے نے جس کو بھی پکڑا عدالتوں نے ان کو ضمانت پر بری کر دیا۔ وہ بھی عدم ثبوتوں کی بنیاد پر جو نیب کی ناکامی اور نالائقی کا ثبوت ہے۔

پھر اس سے بڑا سوالیہ نشان یہ کہ شاہد خاقان، حمزہ شہباز، احسن اقبال، مریم نواز، سید خورشید شاہ، آصف علی زرداری سب چور ہیں اور سب نے اربوں کھا لیے تو علیم خان، زلفی بخاری، خسرو بختیار، مخدوم ہاشم جوان بخت کا احتساب کون کرے گا؟ چھوڑیں احتساب کو یہ بتا دیں کہ ان سے پوچھ گچھ کون کرے گا؟ یہ بھی چھوڑ دیں کہ خسرو بختیار اور ان کے بھائی کا کیس کس بنیاد پر ملتان سے لاہور منتقل کیا۔

ابھی احتساب کے یکطرفہ رویے پر حکومت کو تنقید کا سامنا تھا تو چینی اور آٹے کے بحران نے جنم لیا، اور آج تک اس بات کا ہی جواب نہیں ملا کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں مافیا کون ہے۔ جس کا ذکر خیر وزیراعظم پاکستان نے خود کیا ہے۔ اتنا سخت احتساب ہو ہی رہا ہے تو یہ بھی بتا دیں کہ ای سی سی کے اجلاس میں گندم برآمد کرنے کی اجازت کس نے دی؟

کسی کا نام لئے بغیر سوال تو بنتا ہے کہ کسی کی گرفتاری سے پہلے کسی بھی وزیر، مشیر کو کیسے علم ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی گرفتار ہونے والا ہے۔ چند دن پہلے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر ان چیف کو 34 سال پرانے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا جب کہ وہ پوری طرح نیب کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق ایک وزیر نے بتایا کہ اوپر سے حکم ہوا تھا کہ میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیا جائے۔ میری ناقص رائے کے مطابق کسی سے لین دین کا معاملہ تو کسی کا بھی ذاتی معاملہ ہو سکتا ہے اس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کو کوئی تاثر نہیں ملتا۔ مگر انا ہے کہ اس کو تسکین نہیں آتی۔

خواجہ سعد رفیق کی ضمانت پر رہائی کے معاملے پر نیب لاہور کے اعلی افسر سے جب میری بات ہوئی تو میں نے سوال کیا کہ خواجہ برادران سے کتنی رقم برآمد کی، تو ان کا جواب تھا 'لوہے کے چنے تھے گلانے تھے گلا دیے'۔ پاکستان کی سیاست ہے یہ، بڑی بے رحم ہے۔ اس ملک میں بدلے کی آگ کبھی نہیں بجھتی اور اگر کسی نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہے تو 90 کی دہائی سے لے کر اب تک کی سیاست اٹھا کر دیکھ لیں۔ پھر بھی دل کی تسکین نہ ہو تو پاکستان میں آمرانہ دور حکومت دیکھ لیں۔ بہت سے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔

شاید تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ان کے موجودہ اقدامات ان کے لئے کتنے مشکل ثابت ہو سکتے ہیں، اور عمران خان کے اردگرد موجود لوگ ان کو غلط راستے پر لے کر جا رہے ہیں۔

گذشتہ 2 سالہ دور حکومت میں شاہ محمود قریشی جیسے بڑے سیاستداںوں نے اس معاملے پر کوئی لب کشائی نہیں کی۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتائج مثبت نہیں ہیں اور نہ ہوں گے۔ ابھی ہم معیشت کی ڈوبتی کشتی کو گہرائی سے نکال ہی نا پائے تھے کہ کرونا جیسی قدرتی آفت نے ہمیں بھی گھیر لیا۔ وفاقی وزرا کے مطابق نالائق، نااہل، چور اور ڈاکو سندھ حکومت نے جس طرح ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا وہ لائق تحسین ہے۔ مراد علی شاہ، مرتضی وہاب، سعید غنی، ڈاکٹر عذرا نے دن رات محنت کی اور اب بھی جاری ہے اور اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

سوال ہو وفاقی حکومت سے تو آس اور امید کے علاوہ اب کام ''گھبرانا نہیں ہے'' تک آ گیا ہے۔ سوال تو ہو گا۔ سوال تو بنتا ہے کہ تفتان سے آنے والے زائرین کو آگے آنے کی اجازت کس نے دی؟ یہاں پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت وقت نے صرف اور صرف امید پر ہی قائم رکھا ہوا ہے اور کارکردگی کا سوال ہو تو جواب ماضی کی حکومتوں کی حامیوں کو گنوانا شروع کر دیتی ہے۔

معیشت کی بات کریں تو انڈوں، کٹوں، مرغیوں سے چلانے کی بات ہوتی ہے۔ ٹیکس کی بات کریں تو ملک خسارے میں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک سال میں قرضوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا اتنا ماضی میں بھی نہیں ہوا۔ سابق وزیر خزانہ جو اس تمام تر تباہی کے ذمہ دار ہیں ان کے چال چلن دیکھیں تو کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ انھیں یہ پتا ہی نہیں کہ پاکستان کی موجودہ معاشی تباہی کے ذمہ دار اسد عمر ہی ہیں۔ نواز شریف، آصف زرداری، اب قصہ ماضی ہیں۔ جب انتخابات آنے ہیں تو ہی ان کا فیصلہ ہو گا لیکن عوام جس غم و غصے کا شکار ہے، اب اگر قوم کو کچھ نہ دیا تو آپ کا کڑا احتساب ہو گا، کیوں کہ جو امید آپ نے دلائی وہ قوم کبھی نہیں بھولے گی۔

سوچیے خان صاحب! سوچیے کہ آپ کے اپنے ہی آپ سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔